'گھر میں نوکر کس لیے ہیں؟'

11 دسمبر 2015
ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ ان میں ذمہ داری کا احساس اور محنت کی عظمت پیدا ہو۔ — AP/File
ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ ان میں ذمہ داری کا احساس اور محنت کی عظمت پیدا ہو۔ — AP/File

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ جب ہم بیجنگ میں رہائش پذیر تھے، ایک دن ہم نے شدید برفباری کی پیشگوئی سنی۔ میرے والد نے گھریلو کام کاج کرنے والی چینی خاتون سے کہا کہ اچھا ہوگا کہ اگر وہ سڑکیں بند ہونے سے قبل نکل جائیں۔

جواب میں انہوں نے ادھورے تیار شدہ کھانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کھانا کیا وہ پکائیں گے؟

مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا تھا، مگر اس کے بعد وہ دو سال مزید ہمارے ساتھ رہیں، اس لیے یقینی طور پر وہ اس رات ٹھیک سے گھر پہنچ گئی تھیں۔

اس وقت میں اتنا بڑا نہیں تھا کہ اس واقعے کی اہمیت کو سمجھ سکوں۔ مگر اب مجھے سمجھ آتا ہے کہ جب اس عورت کے پاس انتخاب موجود تھا، تب اس نے اپنے تحفظ پر اپنے کام کو ترجیح دی۔ اور یہ ایک دفعہ کا ذکر بھی نہیں ہے۔

ذمہ داری کا کلچر

اس کلچر کو بچوں میں بالکل نوجوانی سے ہی پروان چڑھانا چاہیے۔ یہاں پر محنت سے پڑھنے اور کام کی اخلاقیات کے درمیان فرق کیا ہی نہیں جاتا۔ ہم لوگ اس کی اہمیت تب تک نہیں سمجھتے جب تک کام کا ڈھیر نہیں لگ جاتا، اور اسے سنبھالنے کے لیے ہم تیار نہیں ہوتے۔

اس کا حل؟ اپنے بچوں سے بچپن سے ہی چھوٹی نوکریاں اور کام کروائیں تاکہ وہ محنت کرنے کی اہمیت کو خود سمجھیں۔

یہ تجویز بہت سادگی پسند لگ سکتی ہے کیونکہ ہم ایک ایسی معیشت کا حصہ ہیں جہاں پر بڑوں کے لیے ہی روزگار کے مواقع بڑی مشکل سے نکل پاتے ہیں، وہاں بچوں کے لیے چھوٹی نوکریاں ڈھونڈنا کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

یہ ایک عالمی حقیقت ہے کہ غربت کے شکار لوگ ہی سب سے زیادہ محنتی ہوتے ہیں اور کام کی بے پناہ اخلاقیات رکھتے ہیں۔ یہ شاید اس وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس متبادل موجود نہیں ہوتا۔

تنخواہوں والی تمام نوکریاں تو انہیں ملنی چاہیئں، جنہیں ان کی واقعی ضرورت ہے۔ مگر اس کے باوجود چھوٹے کاموں کو بچوں اور طلباء کے لیے فائدہ مند اور پرکشش بنایا جا سکتا ہے۔ مثلاً ان کاموں کے بدلے بچوں کو اسکول میں مارکس دیے جا سکتے ہیں یا فیس میں کمی کی جا سکتی ہے، یا شاید والدین ہی انہیں اس کام کے بدلے کچھ پیسے دے سکتے ہیں۔

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کے جرائم پیشہ طبقے کی کوئی عمر نہیں ہوتی، نہ ہی کام کرنے کے مقررہ اوقات ہوتے ہیں، اور نہ ہی چھٹیوں کے دن۔ وہ زندگی میں بہت جلد اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اور ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر ان کی موت کے ساتھ ہی آتی ہے۔ شاید ہمارے معاشرے میں جرائم کی شرح اس حقیقت کے ساتھ قریب سے جڑی ہوئی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو محنت کی اہمیت درست طریقے سے نہیں سمجھا پاتے۔

اگر ہم اپنے بچوں کو انہیں کمتر سمجھنے کی تعلیم دیتے ہیں جو محنت کر رہے ہیں، تو ہمیں ایک منٹ کے لیے رک کر یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو کیسا انسان بنا رہے ہیں۔

ایک اور مسئلہ چھوٹی نوکریوں کی کمی ہے۔ فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ جز وقتی ملازمین کو نہیں بھرتی کرتے۔ اور وہ کریں بھی کیوں جبکہ کل وقتی ملازمین انتہائی کم تنخواہ کے عوض دستیاب ہوتے ہیں؟ اس کے علاوہ ماحول، ہمارے شہروں کے انتہائی پوش علاقوں میں بھی اتنا اچھا نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو بغیر نگرانی کے چھوڑیں۔ مسلسل نگرانی ضروری ہے اور اس کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔

بچوں کے کام کرنے کا ایک اور ذریعہ جسے ہم اور آپ اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں، وہ وہ ہے جو ہم اور آپ ابھی کر رہے ہیں۔ میں کمپیوٹر پر یہ مضمون لکھ رہا ہوں، اور آپ اسے الیکٹرانک ڈیوائس پر پڑھ رہے ہیں۔ اگر آپ کا بچہ اپنی توجہ اس چیز پر مرکوز کر لے، تو وہ کئی کاموں میں طاق ہو سکتا ہے۔

دنیا میں بلاگرز اور یوٹیوبرز موجود ہیں جو یہ کام 13 سال تک جتنی چھوٹی عمر سے شروع کرتے ہیں اور اس سے ایک اچھی زندگی جینے جتنے پیسے کما لیتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ اپنا کام شیڈول اور احتساب کے مطابق کرتے ہیں۔ مستقل مزاجی ضروری ہے۔

اب ہماری مارکیٹ ای کامرس اور ڈیجیٹل مواد کی جانب گامزن ہو رہی ہے، اور پاکستان میں کئی کامیاب آن لائن شاپس موجود ہیں۔ اس لیے ہمیں انٹرنیٹ کے منافع بخش پہلو کا بھی جائزہ لینا چاہیے جس پر ہم اپنا ڈھیر سارا وقت روز لگاتے ہیں۔

پاکستان میں ایک منفرد کلچر ہے۔ نچلے معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو گھریلو ملازموں اور باورچیوں کے طور پر رکھا جاتا ہے، جبکہ جو گھرانہ جتنا دولتمند ہوگا، اس کے اتنے ہی نوکر ہوں گے۔ اس طرح بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، مگر بڑے گھروں کے بچے پھر اس سوچ کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں کہ 'یہ کام ان کے کرنے کا نہیں ہے۔'

میں نے ایک دفعہ اسلام آباد میں ایک گروپ کے ساتھ کام کیا تھا جنہوں نے Inspire Pakistan نامی پروگرام لانچ کیا تھا۔ انہوں نے سرکاری اسکولوں کے بچوں کو ماحول کا خیال رکھنے کی تربیت دی، اور اساتذہ کی بھی اس حوالے سے رہنمائی کی تاکہ بچوں کے لیے آگے بھی یہ مشقیں جاری رہ سکیں۔

یہ بچے واپس گئے اور اپنے اسکولوں کی صفائی خود کر ڈالی، یہاں تک کہ بیت الخلاء بھی خود صاف کیے۔ انہوں نے کسی ایسے کام کے لیے دوسروں کے آنے کا انتظار نہیں کیا، جو وہ خود کر سکتے تھے۔ جب میں نے آخری بار چیک کیا تھا، تو Inspire Pakistan نامی یہ پروگرام کچھ ہی سالوں میں پاکستان بھر سے دس ہزار بچوں کو تربیت دے چکا تھا۔

اس کا مطلب ہے کہ یہ پیغام ان بچوں کے ذریعے دس ہزار گھرانوں تک پہنچ چکا ہے، جو ذمہ داری لینے کے لیے بخوشی آمادہ ہیں۔ یہ تصور بہترین اور انتہائی اہم ہے، اسے ہر بچے تک پہنچنا چاہیے، چاہے وہ کہیں بھی ہو، کسی بھی سماجی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔

مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم اپنے بچوں کے لیے ایسا ماحول تیار کریں جس میں وہ محنت کرنے کی اہمیت سمجھیں اور اس پر واقعی عمل کریں، تو اس ملک پر ہمارا بہت احسان ہوگا۔ اس سے ہم لیڈروں کی ایسی نئی نسل تیار کریں گے، جو مثبت تبدیلی لانے کی ذمہ داری اٹھائے گی، چاہے وہ تبدیلی کام پر ہو یا گھر پر۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

غلام شبير لغاری Dec 12, 2015 10:39am
ڈاں نیوز پر لیکہاری عدی عبدالرب نے بہت اچہا لکہا ہۓ ۔ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں ۔ اس بلاگ کو بہت سنجیدگی سے پڑہنے اور سمجہنے کی ضرورت ہۓ۔۔۔غلام شبیر لغاری ٹنڈوباگو