کراچی آپریشن کے تناظر میں رینجرز کے اختیارات پر جاری بحث واضح طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف تو سندھ حکومت ہے، جس کا کہنا ہے کہ رینجرز خود کو حاصل اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے، تو دوسری جانب رینجرز اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ نیم عسکری ادارہ اپنے دائرہ کار میں ہی رہ کر کام کر رہا ہے اور سندھ حکومت جرائم، دہشتگردی اور کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے قانون کا غلط استعمال کر رہی ہے۔

یہ بحث جتنی بھی منقسم ہو، ایک بات تو دونوں فریقوں میں مشترک ہے کہ اب اس تنازع کو قانونی تنازع قرار دیا جا رہا ہے جس سے بحث کا رخ سندھ اسمبلی کی جانب سے رینجرز کے اختیارات محدود کرنے کے لیے آئین کی شق 147 کے تحت لائی گئی قرارداد کی جانب مڑ گیا ہے۔

پر اگر اس تنازع کی جڑیں کسی قانونی موشگافی یا اختیارات کے غلط استعمال میں موجود ہونے کے بجائے ریاستی ڈھانچوں میں موجود تضادات میں ہوں تو؟

قانونی بحث

سندھ حکومت اور رینجرز کے مابین اختیارات سے متعلق بحث پر قانون واضح ہے۔

پاکستان رینجرز آرڈیننس، 1959: اس قانون کے تحت پاکستان رینجرز نامی فورس کا قیام عمل میں آیا۔ اس کا بنیادی مقصد سرحدی علاقوں میں قانون کے تحفظ اور بالادستی کو یقینی بنانا ہے مگر رینجرز کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس کی کمک کے طور پر (شہر میں) بھی بلایا جا سکتا ہے۔ کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف جاری رینجرز کا حالیہ آپریشن اس آرڈیننس کے تحت نہیں ہے بلکہ انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 (اے ٹی اے) کے تحت ہے۔

شق 4، انسدادِ دہشتگردی ایکٹ، 1997: دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت (اس صورت میں سندھ حکومت) رینجرز کی تعیناتی کا اختیار رکھتی ہے، مگر ایک اہم شرط کے ساتھ — اس کے لیے وفاقی حکومت کی رضامندی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ رینجرز کے اختیارات پر کوئی بھی دیگر شرائط یا حدود لگانے کے لیے بھی وفاقی حکومت کی اجازت لینا لازم ہے۔ مختصراً یہ کہ جب سندھ حکومت وفاقی حکومت سے ابتدائی اجازت لے کر رینجرز کو دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے لیے تعینات کرتی ہے، تو پھر رینجرز سندھ حکومت کے ماتحت اقدامات کرتی ہے، نہ کہ وفاقی حکومت کے۔

شق 6 (2)، تحفظِ پاکستان ایکٹ، 2014: یہ قانون صرف انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کی شق 4 کے تحت صوبائی حکومت کو حاصل اختیارات کی وضاحت اور انہیں مضبوط کرتا ہے۔

آئینِ پاکستان کی شق 147: یہ شق صوبائی حکومت کو اپنے کوئی بھی صوبائی انتظامی اختیارات (مثلاً پولیسنگ) مشروط یا غیر مشروط طور پر وفاقی حکومت یا اس کے افسران کو سونپنے یا منتقل کرنے کی اجازت دیتی ہے، مگر دو شرائط کے ساتھ۔ ایک: اس کے لیے وفاقی حکومت کی رضامندی ضروری ہے، اور دوسری شرط یہ کہ اختیارات کی ایسی کسی بھی منتقلی کو 60 دن کے اندر صوبائی اسمبلی سے منظور کروانا ضروری ہے۔

اس لیے یہ واضح ہے کہ آئین کی یہ شق انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 کی شق 4 کے تحت رینجرز کی تعیناتی پر لاگو نہیں ہو سکتی۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ رینجرز کی یہ تعیناتی (وفاق کی رضامندی کے ساتھ) کسی بھی صورت میں صوبے کے انتظامی اختیارات کی وفاقی حکومت کو منتقلی قرار نہیں دی جاسکتی، کیونکہ سندھ حکومت انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کی شق 4 کے تحت رینجرز کے اقدامات کو کنٹرول کر رہی ہے۔

اس سب سے تین نتائج نکلتے ہیں۔ پہلے تو یہ کہ رینجرز کے اقدامات حکومتِ سندھ کے کنٹرول میں ہیں۔ دوسرے، رینجرز کے اختیارات پر لگائی جانے والی کوئی بھی حدود و قیود وفاقی حکومت کی اجازت سے ہونی چاہیئں۔ تیسرے یہ کہ سندھ اسمبلی کی جانب سے رینجرز کے اختیارات محدود کرنے کے لیے 16 دسمبر کو منظور کی گئی قرارداد ایک آئینی مذاق یا ایک غیر آئینی اقدام ہے۔

قانونی اختیارات اور حقیقی اختیارات

مشرف کے جانے کے بعد سے عسکری قیادت ان دو تبدیلیوں کے بارے میں سوچ رہی ہے جو اسے کمزور کرتے ہیں، یعنی جمہوریت کا فروغ اور مرکزیت کا خاتمہ۔ ایک کامیاب مارشل لاء کے امکانات کی عدم موجودگی میں فوج اپنی پوزیشن کو 'غالب' سے تبدیل کر کے 'برتر' پر لے آئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے اہم معاملات میں اپنی بات کہنے یا انکار کر دینے کا حق ہے۔ مختصراً کہیں تو ایک عسکری جمہوریت وجود میں آئی ہے جس میں سیاسی اور عسکری قیادت باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کو برابر کے فیصلہ ساز کی سطح پر رکھتے ہیں، بھلے ہی آئینی طور پر فوج حکومت کے ماتحت ہے۔

اس کے علاوہ فوج میں مرکزیت ہے مگر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد پاکستانی ریاست میں مرکزیت نہیں رہی ہے۔ اس کا حل نکالنے کے لیے متبادل مرکزی ڈھانچے جیسے کہ ایپکس کمیٹی یا کور کمانڈرز کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں میں جڑیں پکڑ رہے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ایک ہی ساتھ مرکزیت اور غیر مرکزیت کے مراحل جاری ہیں۔

رینجرز کے اختیارات پر موجود تنازع اسی تضاد کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو یہ تضاد سندھ کی کرپٹ اور نااہل مگر جمہوری حکومت کی قانونی طاقت اور احتساب سے بالاتر مگر سندھ میں دہشتگردی کے خلاف مؤثر کردار ادا کرنے والی فوج کے درمیان ہے۔

کیا ہوتا ہے جب سیاسی حکومت صرف ایک مقصد حاصل کر سکتی ہو، اور وہ دہشتگردی کے خلاف لڑنا ہو؟ کیا ہوتا ہے جب سیاستدان اور فوج عوام کو معاشی، سیاسی اور سماجی اصلاحات کے بجائے صرف جسمانی تحفظ فراہم کر سکتے ہوں؟ کیا ہوتا ہے جب دہشتگردی کے خلاف لڑنے کی مکمل ذمہ داری فوج کو سونپ دی جائے؟ اس کے نتائج واضح ہیں — ایک ایسی سیاسی حکومت جس کی بنیادی آئینی ذمہ داری عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا ہے مگر وہ اس کام کے لیے فوج پر منحصر ہے۔

بری خبر یہ ہے کہ یہ تضادات تنازع کو بڑھاتے رہیں گے۔ خوش خبری یہ ہے کہ اس سے سیاسی نظام کو نقصان شاید تب تک نہ ہو جب تک ظاہری طور پر سیاسی اور عسکری قیادت کے بیچ طاقت کا توازن موجود ہے، جیسا کہ عمران خان کے دھرنے کے دوران تھا۔ اس لیے سول ملٹری تعلقات کامیاب مگر ایک متزلزل شادی کی طرح نظر آ رہے ہیں جس میں شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کو مسلسل دھمکاتے رہتے ہیں مگر پھر بھی شوہر اور بیوی ہی رہتے ہیں۔

لکھاری وکیل ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 دسمبر 2015 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai of Shewa Dec 21, 2015 01:13am
صدیقی صاحب یہ نکتہ بھول رہے ھیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد امن وامان صوبائی مسلئہ اور زمہ داری ھے کسی بھی وفاقی ادارہ صوبے کی رضامندی کے بغیر وہاں کاروائی نہیں کرسکتی صدیقی صاحب یہ بھی نہیں کہہ رہا ھے کہ رینجرز کی تعیناتی کے احداف معلوم تھے جس اھم نکتے دھشتگردی ٹارکلنگ اغوا قتل وعارت بھتہ حوری وغیرہ شامل تھے لیکن رینجرز نے بغیر کسی قانونی کور کے بغیر انکو معاملوں پر بھی ہاتھ ڈالا جو انکے دائرے اختیار سے باہر تھے دوسری طرف یہ بھی ضروری ھے کہ مدت پوری ھو نے کے بعد مزید توسیع کیلئے صوبائی حکومت کی رضامندی ضروری ھے صوبائی حکومت کو بھی اپنی پارلیمان سے منظوری لینا شرط ھے اسکے بغیر وفاقی ادارے کی کاروائی کی کونی قانونی حیثیت نہیں اس سلسلے میں وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک آئینی سقم موجود ھے جس کو دور کرنے کیلئے وفاق کو مزید قانون سازی کی ضرورت ھوگی