اک شخص کتابوں جیسا تھا

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2020
کمال احمد رضوی ڈراما الف نون میں رفیع خاور عرف ننھا کے ساتھ۔ — بشکریہ پاکستان ٹیلیویژن آرکائیوز۔
کمال احمد رضوی ڈراما الف نون میں رفیع خاور عرف ننھا کے ساتھ۔ — بشکریہ پاکستان ٹیلیویژن آرکائیوز۔
کمال احمد اپنی اہلیہ عشرت جہاں کے ساتھ کراچی لٹریچر فیسٹیول 2013 میں۔ — فوٹو راشد اشرف۔
کمال احمد اپنی اہلیہ عشرت جہاں کے ساتھ کراچی لٹریچر فیسٹیول 2013 میں۔ — فوٹو راشد اشرف۔

وہ ایک سہ پہرتھی، میں نے دروازے پردستک دی۔ دروازہ کھولنے والے نے مجھے خوبصورت پینٹنگز سے سجے مہمان خانے میں بٹھایا۔ کچھ ہی دیر میں میزبان کمرے میں داخل ہوئے۔ میری ان سے یہ پہلی ملاقات تھی اور ان کا نام ”کمال احمد رضوی“ تھا۔

2008 کی اس ملاقات میں ایک اخبار کے لیے ان سے تفصیلی مکالمہ کیا، جس سے اندازہ ہوا کہ وہ عافیت میں ہیں، اپنی زندگی سے مطمئن ہیں اور زیادہ وقت تخلیقی کاموں کے لیے وقف ہے۔ زیادہ میل جول نہیں رکھتے، البتہ کسی کی آمد و رفت پر روک ٹوک بھی نہیں، مگر غیرضروری سرگرمیوں میں شامل ہونے سے پرہیز کرتے ہیں۔ مطمئن چہرے اور ہشاش بشاش شخصیت کے ساتھ، گرم جوشی سے بھرپور ملاقات کی یاد، کمال صاحب کے حوالے سے میرے ذہن میں نقش رہ جانے والا پہلا تاثر تھا۔

ان کی رحلت کے بعد میڈیا میں تعزیتی بیانات کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ غیر تصدیق شدہ خبریں تخلیق کی گئیں، ان کی ہمہ جہت فنی شخصیت پر بات کی جاتی تو موضوعات کی کمی نہ تھی مگر تحقیق کا بھاری پتھر کون اٹھاتا؟

اکثر اخبارات نے بھی سطحی بلکہ پرانی تحریروں سے کام چلایا۔ کمال صاحب کو ”معاشرے“ کی اسی منافقت اور ”میڈیا“ کی غیر پیشہ وارانہ حرکات سے نفرت تھی، جس کی وجہ سے انہوں نے خود کو اب تک ان دونوں سے دور رکھا تھا۔ مردہ پرست معاشرے میں رہنے والا ایک سچا فنکار اور کر بھی کیا سکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ وہ خود کو سمیٹ لے اور گوشہ نشین ہو جائے، یہی انہوں نے کیا۔

کمال صاحب نے معاشرے کی تلخیوں کو اپنے تخلیق کیے ہوئے کرداروں سے بیان کیا، مگر نہ جانے کب یہ تلخی ان کے کرداروں سے ہوتے ہوئے ان کے مزاج میں بھی اتر گئی۔ وہ معاشرتی رویوں پر بے لاگ گفتگو کرتے۔ سیاسی حالات، حکومتی معاملات، معاشرے میں فنکار کی عزت، عوام میں ان کا احترام، سرکاری اعزازات اور بہت سارے ایسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو جاتے۔

ان کی تلخ گویائی برداشت کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی، اسی لیے نہ تو وہ کسی چینل پر گفتگو میں حصہ لیتے دکھائی دیے، نہ ہی تھیٹر اور ڈرامے کے زوال پر کسی کو ان سے رائے لیتے ہوئے دیکھا گیا، کیونکہ اسے دکھانے اور چھاپنے کے لیے بھی تو حوصلہ چاہیے تھا۔ یہ کمال صرف کمال احمد رضوی کا ہی تھا کہ انہوں نے ہمیشہ زندگی کی تلخیوں اور برہنہ حقیقتوں کو قلم بند کیا۔

کمال صاحب نے تھیٹر، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے لکھے۔ بطور اداکار اپنے لکھے ہوئے کئی کھیلوں کے علاوہ دیگر ڈراما نگاروں کے کھیلوں میں بھی شامل رہے۔ تھیٹر اور ٹیلی وژن کے لیے ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیے۔ ریڈیو کے لیے صداکاری کی، طبع زاد افسانے لکھے۔ دیگر زبانوں کے ادب میں دلچسپی نے ان کو ترجمے کی طرف راغب کیا اور انہوں نے کئی مشہور کہانیوں کو ڈرامائی تشکیل دے کرتھیٹر کے لیے پیش کیا۔

انہوں نے سب سے زیادہ مشقت تھیٹر کے میڈیم کے لیے کی، مگر ان کی وجہء شہرت ٹیلی وژن پر پیش کیا جانے والا ڈراما سیریل ”الف نون“ بنا جس کو بعد میں انہوں نے اسٹیج بھی کیا اور اس پر فلم بنانے کی کوشش بھی کی پر اسٹیج اور فلم میں اسے ٹیلی وژن والی کامیابی نہ مل سکی۔

کمال صاحب عالمی ادب میں روسی ادیبوں سے خاص طور پر متاثر تھے، انہوں نے دوستووسکی، ترگنیف، چیخوف، آسٹروفسکی، پشکن اور ٹالسٹائی جیسے ادیبوں کی تخلیقات کا ترجمہ کیا۔ دیگر جن ادیبوں کے فن پاروں کو تراجم میں ڈھالا، ان میں کارسن مک ملر، ماس ہاٹ، جارج ایس کافمین، گولڈونی، دوڑ شیری، اگاتھا کرسٹی، ہنرک ابسن، مولیر، سمرسٹ مام شامل ہیں۔

کمال پاکستانی ادیب سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے ”بادشاہت کا خاتمہ“ کو تھیٹر کے لیے پیش کرنا چاہتے تھے۔ ان کی یہ خواہش جب منٹو تک پہنچی تو انہوں نے کہا ”میری زندگی میں تو یہ نہیں ہوسکتا“، جس پر کمال صاحب نے جواب دیا ”ٹھیک ہے، آپ کے مرنے کے بعد کروں گا“ اور پھر اپنے اس قول کو نبھایا۔

گزرتے وقت کے ساتھ معاشرے کے لیے تربیتی پہلوؤں پر غور کرنے کی عادت نے ان سے ڈیل کارنیگی کی کتابوں کے تراجم کروائے۔ وہ ایک زمانے میں تہذیب، آئینہ اور شمع جیسے رسالوں کی ادارت بھی کرتے رہے۔ بچوں کے رسائل ”بچوں کی دنیا“ اور ”تعلیم و تربیت“ کے مدیر بھی رہے۔ بچوں کے لیے ناول کی صنف میں ادب تخلیق کیا اور دیگر زبانوں میں بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں کے تراجم کیے۔

مختصر عرصے کے لیے بی بی سی اردو سروس سے بھی وابستگی رہی۔ یہ اس شخص کی زندگی کاخلاصہ ہے،جس کا کہنا تھا کہ ”جب میری والدہ کا انتقال ہوا تو میں بہت چھوٹا تھا۔ تنہائی میرے اندر سرایت کر گئی۔ میں اس قدر تنہا تھا کہ میرے پاس کھیلنے کو کھلونے بھی نہیں تھے کہ میں ان سے اپنا وقت کاٹ سکتا۔“ شاید اسی لیے پھر تمام عمر خود کو بہلانے کے لیے اتنے مصروف رہے۔

بارہ برس کی عمر میں پہلی بار اسکول میں شیکسپیئر کے کھیل میں ایک کردار نبھایا، جہاں سے تھیٹر سے لگاؤ ہوا۔ گریجویشن کے بعد ہجرت کی اور پاکستان آگئے۔ پہلے کراچی، پھر لاہور اور دوبارہ کراچی میں سکونت اختیارکی۔ تھیٹر اور ریڈیو کے لیے خدمات انجام دیں مگر شہرت کا دروازہ ٹیلی وژن کے ڈرامے ”الف نون“ سے کھلا جس کی ڈراما نگاری، ہدایت کاری اور اداکاری کے فرائض بھی خود انجام دیے۔

انہوں نے تھیٹر، ریڈیو اور ٹیلی وژن میں اپنے وقت کے تمام معروف فنکاروں کے ساتھ کام کیا۔ انہیں وہ شہرت ملی، جس کی کوئی فنکار تمنا ہی کر سکتا ہے، لیکن کمال صاحب کے مقدر کا ستارہ شہرت کے فلک پر خوب چمکا۔ جہاں اس شعبے میں ان کے بہت سارے فنکار دوست ہوئے، کئی فنکاروں سے پیشہ وارانہ چقپلش بھی رہی۔

کمال صاحب سخت محنتی تھے، اسی لیے زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ چند برس پہلے انہوں نے ایک تھیٹر کا ڈراما کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کے لیے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس نے ریہرسل کے لیے مطلوبہ سہولتیں بھی فراہم کیں۔ جب کھیل تیار ہوگیا، تو کراچی آرٹس کونسل میں اسے پیش کرنے کے لیے آڈیٹوریم کی تاریخیں نہ ملیں۔ دل برداشتہ ہوگئے اور یوں وہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اسی آرٹس کونسل میں ان کے لیے ”اعترافِ کمال“ کے نام سے ایک شام منائی گئی۔

میں سوچتا ہوں کہ کاش میرے ذہن میں ان کا پہلا تاثر ہی برقرار رہتا تو کیا تھا، مگر کئی برسوں بعد 2013 میں کمال صاحب کو انگریزی زبان کے ادبی میلے میں اپنے اردو ڈراموں کی کتابیں فروخت کرتے دیکھا، تو دل پسیج گیا۔ کمال صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ کتابوں کے اسٹال پر تشریف فرما تھے۔ بغور دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنی ہی کتابیں فروخت کر رہے ہیں۔

کئی برس پہلے لاہور سے ”الف نون“ کے عنوان سے ان کے ڈراموں کا مجموعہ شائع ہوا تھا، جس کو اس وقت کے سب سے بڑے ناشر نے شائع کیا تھا، مگر پھر کسی ادبی شرپسند نے اس معصوم شخص کو ناقص مشورہ دیا کہ اس کتاب کو خود چھاپیں۔ پاکستان میں اپنی چھاپی ہوئی کتاب بیچنا نہایت کٹھن کام ہے اور وہ کمال صاحب جیسے کھرے اور خوددار آدمی کے بس کی بات نہ تھی۔

میری پہلی ملاقات میں انہوں نے اپنے مستقبل کے کئی منصوبے بتائے، مگر اس حوالے سے کوئی ارادہ ظاہر نہ کیا تھا، حالانکہ زندگی کے آخری برسوں میں ان کے مراسم جن محدود لوگوں سے رہے، ان میں سے اکثریت عملی طور پر اس کاروبارِ ہنر سے خوب واقف تھی۔

حکومتِ وقت نے انہیں زندگی میں پوچھا نہیں اور معاشرے کا برتاؤ سب کے سامنے ہے۔ کمال صاحب کو بھی اس معاشرے سے کوئی خاص امیدیں نہ تھیں۔ وہ اس کو ”چھچھوروں کا معاشرہ“ کہتے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا” اللہ کرے وہ جو مجھے نظر آ رہا ہے، وہ کسی کو نظر نہ آئے اور ایسا کبھی نہ ہو۔ ہم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے، ایک دوسرے کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، جھوٹ اور منافقت سے کام لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے خلوص باقی نہیں رہا۔ آج معاشرہ خودکشی کر رہا ہے، کل کو ردِعمل میں لوگ ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہوں گے۔“

پھر ان آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ کمال صاحب اپنی کتابوں کے اسٹال پر بیٹھے گاہکوں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ رویہ تھا ایک معاشرے کا اپنے عظیم فنکار کے ساتھ۔ بعد از مرگ یاد کیا بھی تو کیا کیا۔ فنکار بوڑھا بھی ہوجائے، مگر اس کے احساسات تو بوڑھے نہیں ہوتے، مگر افسوس اس کے طنز و مزاح پر ہنسنے والوں میں سے کوئی اس کے آنسو پونچھنے نہیں آیا، ہرچند کہ کمال صاحب کا ضبطِ کمال کا تھا، وہ کہا کرتے تھے کہ ”بچپن میں اس قدر تنہا تھا کہ میرے پاس کھیلنے کو کھلونے بھی نہیں تھے۔“ تنہائی تو اب بھی تھی، مگر اس بار اظہار نہ کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (15) بند ہیں

Smazify Dec 21, 2015 02:05pm
آنکه بهر دینے والی تحریر. جس معاشرے میں عظیم فنکار کی یہ حالت ہو وہ معاشرہ درندہ بن جاتا ہے.
avarah Dec 21, 2015 03:03pm
Kemal sahib, sahib i Kemal theeeeeeey
سجاد خالد Dec 21, 2015 03:05pm
خرم سہیل صاحب نے کمال احمد رضوی کے حوالے سے معاشرے کے عمومی رویوں پر روشنی ڈالی ہے۔ سوسائٹی کی اخلاقی اقدار کا رونا بھی رویا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اخلاقی اقدار بننے اور بگڑنے کا میکنزم کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ نتیجتاً ہر تخلیق کار کی موت کے بعد اس سے ملی جلی تحریریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔ آپ مصنف اور اس کی تخلیقات کے ناموں کی جگہ دوسرے مصنف اور اس کی تصنیفات لکھ دیں تو کم و بیش وہی مضمون بن جائے گا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کتنے فیصد فنکار سوسائٹی کی نفسیات پر گہری نظر رکھتے تھے کہ ان کی تخلیقات قبولِ عام حاصل کر سکیں۔ الف نون کو سمجھنے کے لئے کسی فلسفی، ماہرِ لسانیات اور ماہرِ نفسیات کی ضرورت نہ تھی۔ وہ آسان ترین اسلوب میں دکھا رہا تھا کہ سادہ لوح انسان کیسے چالاک لوگوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یاسین انصاری Dec 21, 2015 04:22pm
کمال احمد کمال شخص تھے ، مجھے ایک جنازے پر آج سے چند سال قبل ملاقات کا شرف حاصل ھوا جب وہ جناب لطیف کپاڈیا کی بیوہ اور ھمارے ایم ڈی کی والده کی آخری رسوم میں شریک ھونے تشریف لاے تھے - میں تو ملازم ھونے کے ناطے آیا تھا مگر کمال کے آدمی کو وهاں پا کر مجھے اندازہ ھوا کہ وہ اپنے دوستوں اورانکے عزیزوں کیلئے کس قدر لگاؤ رکھتے ھیں اور ایک گوشہ نشین تخلیق کار ھونے کے باوجود اپنی سماجی ذمے داریوں اور فرائض کا کس قدر خیال رکھتے ھیں حالانکہ فیس بک کے اس غیر سماجی بے حس دور میں پچھلی گلی میں رھنے والا عزیز بھی اپنی خالہ کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ھوتا اور محض ٹائم لائن پر انا للہ ..کی امیج اور کوئی جذباتی عبارت لکھکراھم انسانی سماجی فرض سے اپنے آپکوسبک دوش کرلیتا ھے - کمال صرف لفظوں اور خیالات سے جادوگری کا کمال رکھتے تھے بلکہ انسان بھی کمال تھے ، درد سہنے والے ، درد کو سمجھنے والے !
Haider Shah Dec 21, 2015 05:13pm
To be honest if we let out inner soul out you will find... We all hypocrite some # or % can be differ < or > .Our feeling have complete bundle of greed, selfishness, intolerance… list goes on. Do we have any things Pure? If not well, Kamal Haider Rizvi had slapped on our faces without knowing us, and this is the biggest achievement for him. He achieved his mission as hundreds of others did before him.
یمین الاسلام زبیری Dec 21, 2015 06:28pm
کیا عمدہ مضمون ہے۔ ہم کمال رضوی کو صرف الف نون کے حوالے سے جانتے تھے۔ اس مضمون سے ان کےترجموں کے بارے میں پڑھ کر حیرت ہوئی کہ اس شخص نے اتنا کام کر رکھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بہت سارے ترجموں کی ضرورت ہے۔ مضمون لکھنے پر خرم صاحب کا شکریہ ۔ اللہ کمال رضوی کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
Shahod Jatoi Dec 21, 2015 08:41pm
An excellent piece on Kamal Ahmed Rizvi
Ali Dec 21, 2015 09:52pm
Good writing. However don't know why writer is so against of Kamal's selling book at book fair. I have seen some famous writer and billionaires selling books at book shops in the west. And people line up to buy their books with autograph. And there is nothing wrong in selling books! Society should change it's attitude with the passage of time.
avarah Dec 22, 2015 01:02am
@Ali YOU SAW IT IN WEST- YOU SEE IT IN EAST- WRITER OF POOK IS NOT GIVEN PREMIUM IN EAST- WRITER IS ASKED TO WRITE BOOK FOR FAME - SO WHEN A WRITER IS ON HIS STALL TO SELL HIS OWN BOOKS IT MEANS THAT HE IS ECONOMICALLY NOT WELL AND NEEDS HELP------------------------HE WENT HONOURLY----- CAN WE HELP HER WIVES WITHOUT WRITING THESE LINES
Jamal Dec 22, 2015 03:37am
پاکستان میں ہر اچھے آدمی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے
Majid Ali Dec 22, 2015 03:52am
@Ali This is the problem they are billionaire he is trying to sell his book to run the house... they one you are saying is part of marketing...they get millions from books in Pakistan author does not get anything only small amount of money ....publisher get all the money and there is no check-balance for author.
DH Kazmi Dec 22, 2015 12:57pm
MashaAllah zabardast mazmoon hai, Allah marhoom ki maghfirat farmae, aameen
سجاد خالد Dec 22, 2015 03:08pm
@Ali آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ مصنف اپنی کتاب اپنے دستخط کے ساتھ بیچے تو چاہنے والے یقینا! ترجیح دیں گے۔ لیکن اس مضمون کے مصنف نے ایک اور پہلو سے بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں کمال احمد رضوی جیسے سیدھے اور کھرے شخص کو کتاب خود سے شائع کرنے کا مشورہ دینا بہتر نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہاں کتاب بیچنا ایک خاص طرح کا تجارتی عمل ہے جس سے تخلیق کار واقف نہیں ہوتا اور اپنے پیسے کے ساتھ ساتھ وقت کا ضیاع بھی کر بیٹھتا ہے۔
khalilashaikh and family Dec 23, 2015 11:13pm
Excellent feature on Kamal A Rizvi with in depth emotional feelings based on reality .With Regards Khalil A Shaikh & Family
نجیب احمد سنگھیڑہ Dec 23, 2015 11:46pm
کمال احمد رضوی کے ڈراموں کا میں سکول کے زمانے سے ہی شیدائی تھا اور انہی کے ڈراموں نے مجھے سوچنے کی عادت مہیا کی۔ کمال صاحب کی ڈراموں کا ایک مجموعہ کافی سال پہلے پڑھا اور کمال صاحب اور دیگر چند مخصوص رائٹرز کے نام ہمیشہ میرے پرس میں ایک صفحے پر لکھے ہوتے ہیں جو کتابوں کی دکان میں داخل ہوتے ہی کھول کر پڑھتا ہوں اور ان کی کتابیں ڈھونڈھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کمال رضوی صاحب کے ڈراموں کے علاوہ مجھے پندرہ سال تک کوئی کتاب نظر نہیں آئی باوجود اس کے گاہے بگاہے لگنے والے کتاب میلے باقاعدہ وزٹ کرتا ہوں۔ محترم خرم صاحب نے کمال رضوی صاحب کو باقاعدہ ایک لکھاری اور مترجم کے روشناس کروایا ہے، اس لیے بہتر تھا کہ کتابوں کے نام اور پبلشر بھی لکھ دیئے جاتے تو معزز قارئین کے ساتھ مجھ کو بھی کمال صاحب کی کتابیں ڈھونڈھنے میں مدد مل سکتی۔