سورج اور حضورِ اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس

24 دسمبر 2015
لکھاری ماہرِ تعلیم ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
لکھاری ماہرِ تعلیم ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا پیغام انمٹ ہے اور کئی صدیاں گزرنے کے باوجود ان کے الفاظ، ان کی سنت اور ان کی مثالیں اب تک ان لوگوں کے راستے منور کر رہی ہیں جو عملی اخلاقیات، علم، اور روحانیت، یہاں تک کہ جنگ اور سیاست کے شعبوں میں خود کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ حضورِ اکرم ﷺ ایک انسانِ کامل تھے، جنہوں نے ان تمام اصولوں کو زندگی بھر اپنائے رکھا اور ان کی تبلیغ کی۔

قرآن میں حضرت محمد ﷺ کے لیے کئی تشبیہات استعمال کی گئی ہیں، مثلاً سورہ 33 (الاحزاب) آیت 45 سے 46 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ کو گواہ (شاہد) اور خوش خبری سنانے والے (مبشر) اور خبردار کرنے والے (نذیر) کے طور پر بھیجا ہے؛ اور خدا کی طرف بلانے والے (داعی) اور روشنی پھیلانے والے چراغ (سراجاً منیر) کے طور پر۔

یہ تمام تشبیہات نبی کریم ﷺ کو بھیجے جانے کا مقصد بیان کرتی ہیں اور اپنے اندر گہرے معانی سموئے ہوئے ہیں۔ انہیں درست انداز میں سمجھنے سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو سکتا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کے لیے ایک تشبیہ سراجاً منیرا کی استعمال کی گئی ہے۔ السراج کا مطلب ہے وہ چراغ جو اندھیرے مٹا دینے والی روشنی جاری کرے۔ سورہ 71 (نوح) کی آیت 16 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے سورج کو السراج (چراغ) کے طور پر بنایا ہے۔ اس تشبیہ کے مطابق حضور ﷺ سورج کی طرح ہیں جن کی روحانی روشنی، رہنمائی، علم اور ان کے اخلاقیات کی مثالیں ایک مومن کا راستہ روشن کر سکتی ہیں، جس سے وہ اس دنیا اور آخرت دونوں ہی میں مستقل سکون، خوشی اور کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

ہماری دنیا میں سورج کی بہت سی نمایاں خصوصیات ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین تخلیقات میں سے ہے جو ہمیشہ روشنی، توانائی اور گرمی فراہم کرتا رہتا ہے۔ یہ کبھی غروب نہیں ہوتا، بھلے ہی ہمیں یہ مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہ نہ کبھی طلوع ہوتا ہے اور نہ غروب، بلکہ اپنے محور پر گردش کرتا رہتا ہے، اور زمین کا جو بھی حصہ اس کے سامنے آئے، اسے روشنی اور گرمی فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح حضورِ اکرم ﷺ ایک روحانی سورج ہیں جو کبھی غروب نہیں ہوتے۔ وہ آخری پیغمبر ہیں اور ان کی روشنی انسانیت کی بالعموم اور مسلمانوں کی بالخصوص دائمی راحت کی طرف رہنمائی کرتی رہتی ہے۔

دوسرا یہ کہ سورج اپنے وجود کے ثبوت کے طور پر کسی دلیل کا محتاج نہیں ہے۔ سب ہی لوگ سورج کو دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو بھی اپنی روحانی معراج ثابت کرنے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی۔ عرب معاشرے میں صرف وہی لوگ ان کی روحانیت نہ دیکھ سکے جو بصارت تو رکھتے تھے مگر بصیرت نہیں۔ قرآن ان سے سورہ 7 (الاعراف) کی آیت 179 میں مخاطب ہے: "ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں"۔ ان میں ابو جہل، ابو لہب اور دیگر لوگ شامل تھے جو تنگ نظر تھے اور خود کو اس تنگ نظری سے آزاد نہیں کر سکے۔

سورج کی تیسری خصوصیت اس کی لامحدودیت ہے۔ جس طرح دنیا کا کوئی بھی شخص خود جا کر سورج کی روشنی اور اس کی قوت ناپ کر نہیں آیا اور صرف حسابات پر اکتفاء کیا جاتا ہے، اسی طرح روحانی دنیا میں کوئی بھی آج تک حضورِ اکرم ﷺ کی عظمت اور مقام کو مکمل طور پر نہیں سمجھ پایا ہے۔ ان کا نزول اللہ کی جانب سے ایک عظیم نعمت قرار دیا گیا ہے۔

سورج کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ لامحدود توانائی کا ذخیرہ ہے، اسی وجہ سے ہماری زمین رہنے کے قابل بنتی ہے۔

کئی تہذیبیں یہ بات جانتی ہیں کہ سورج کی روشنی کو کس طرح کئی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سورج کی روشنی میں تھوڑی دیر کے لیے رہنا بھی ہمارے جسم کو وٹامن ڈی بنانے کی تحریک دیتا ہے، جس سے ہماری ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور خطرناک جراثیم مرتے ہیں۔ کیونکہ کئی بیماریاں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دھوپ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہوتی ہیں، اس لیے سورج کا ان بیماریوں کے خاتمے میں بھی اہم کردار ہے۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے اس دنیا میں آنے نے کئی روحانی امراض جیسے جہالت اور تکبر وغیرہ کو ختم کیا جن کا ان کے آنے سے قبل دور دورہ تھا۔ انہوں نے علم کی نئی راہیں کھولیں، سوچنے اور تفکر کی تبلیغ کی اور بے لوث خدمت پر زور دیا۔

جس طرح سورج انسانیت کے کئی مسائل حل کرتا ہے، اسی طرح اخلاقیات کی معراج تک پہنچانے والے راستے میں حائل مشکلات کا حل رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات میں موجود ہے۔

سورج کی گرمی برف پگھلا کر دریاؤں کو پانی سے لبریز کرتی ہے، جس سے کھیتی ہوتی ہے اور طرح طرح کے پھل اور پھول اگتے ہیں۔ اسی دھوپ اور گرمی کی وجہ سے بارش برستی ہے جو بنجر زمین کو زرخیز بناتی ہے، لیکن کچھ زمینیں اس کا کوئی اثر قبول نہیں کرتیں۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا روحانی پیغام ایک مومن کے دل کو گرماتا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کی آمد سے قبل عرب معاشرے میں ایسے عناصر تھے جو تجارتی قافلوں کو لوٹتے، اپنی نوزائیدہ بچیوں کا قتل کرتے اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث رہتے۔ مگر نبی رحمت کی آمد کے بعد ان کی زندگیاں بدل گئیں اور وہ مثالی اصحاب میں بدل گئے۔ اس کی ایک مثال جلیل القدر صحابی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔

انسانیت اس روحانی سورج کی شکر گزار اور مقروض ہے۔ ان کی تعلیمات اور ان کی مثال پر عمل کرنا چاہیے اور نئی نسل کو پہنچانا چاہیے۔

لکھاری ماہرِ تعلیم ہیں اور مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 24 دسمبر 2015 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں