ہو من جہاں کے اسٹارز ماہرہ خان، شہریار منور، عدیل حسین اور سونیا جہاں کے چہروں سے سجے پوسٹرز کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر کے گلی کوچوں میں لگے ہیں جو ہمیں کسی احساس دلارہے ہیں کہ افق پر کچھ بڑا ہونے والا ہے۔

یہ اتفاقی ہوسکتا ہے مگر ہو من جہاں کے پروموز کی اثر پذیری سے ہمیں اس طرز کی دنیا کا عندیہ ملتا ہے جو فلم ہمیں فروخت کرنے کی کوشش کررہی ہے : ایک جہاں خاندانی خراب تعلقات بہت تیزی سے چمک کھوتے اور پریشان کن ہوجاتے ہیں۔ حقیقی دنیا کے مسائل جیسے طبقاتی فرق اور جنسی حسد بہت نرمی سے پس منظر میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے ایک جگمگاتا بورڈ لٹک کر کسی عمارت کی ابتر حالت چھپالیتا ہے، ہو من جہاں بھی ہمارے پریشان اعصاب کو سکون پہنچا کر فریب خیال کو زندگی میں لے آتی ہے۔

کیا یہ کوئی مسئلہ ہے؟ نظریاتی طور پر نہیں، ایک فلم جس کا مرکزی خیال رومانوی ڈراما ہو، ہر تکلیف کو ظاہر کرنے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی، مگر عملی طور پر آپ سب کچھ اچھے جیسا پریوں کا دیس دکھائیں تو فلم کے بناوٹی نظر آنے کا خطرہ مول لے لیتے ہیں۔

ہو من جہاں ان دونوں پوزیشنز کے درمیان ایک لکیر پر چلتی رہی۔

فلم کی کہانی

ہو من جہاں تین نوجوانوں منیزے (ماہرہ خان)، نادر (عدیل حسین) اور ارحان (شہریار منور) کی زندگیوں کے گرد گھومتی ہے، جو کالج سے گریجویشن کے بعد 'حقیقی دنیا' میں اپنی راہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، یہ تینوں دوست موسیقی سے دلچسپی رکھتے ہیں جو گریجویشن کے بعد ایک میوزک بینڈ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ان کی خاندانی زندگی مشکلات سے بھرپور ہوتی ہے۔ منیزے طلاق شدہ والدین کی بیٹی ہے اور اپنی عام روش سے ہٹ کر زندگی گزارنے والی آرٹسٹ ماں (نمرہ بچہ) کے ساتھ رہتی ہے، نادر سونے کے دل کا مالک ایک امیر لڑکا ہے جو اپنے متکبر والدین (بشریٰ انصاری اور ارشد محمود) کے ساتھ رہتا ہے جبکہ ارحان بالکل مختلف ماحول میں پلتا بڑھتا ہے (وہ صدر کھارادر یا اسی طرح کے کسی علاقے میں رہتا ہے) اور اپنے تقاضے کرنے والے باپ اور کمتر پس منظر سے فرار کا انتظار نہیں کرسکتا۔

منیزے، نادر اور ارحان اپنا پورا وقت اکھٹے گزارتے ہیں اور بے تکلف دوست ہوتے ہیں۔

فلم کا پہلا ہاف ان کی دوستی پر ہی گھومتی ہے جو بلٹ پروف نظر آنے لگتی ہے یہاں تک کہ نادر اور منیزے غیرمحسوس انداز میں قریب آکر منگنی کرلیتے ہیں، شہریار کو ایسے حال میں چھوڑ دیتے ہیں جس کی میں یہ وضاحت کرسکتی ہوں کہ وہ تیسرا پہیہ ہے۔

مشکل اس وقت سامن آتی ہے جب نادر کے حد سے زیادہ تحفظ کرنے والی ماں فیصلہ کرتی ہے ارحان درحقیقت اس کے بیٹے کو معاشرے میں اوپر آنے کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے جبکہ منیزے جو ایک آرٹسٹ کی بیٹی ہے درحقیقت اس کے بیٹے کے لائق نہیں۔

اسی دورانیے میں ارحان اپنے والد کے مسلسل طعنوں سے پریشان ہوکر اور حالات سے باہر نکلنے کے گھر چھوڑ دیتا ہے منیزے یا نادر میں سے کسی سے مدد لینا ہوتی ہے۔

مگر یہ دونوں آپشن ہی مناسب نہیں ہوتے (جیسا اوپر نادر کی والدہ کا ذکر کیا جاچکا ہے) تو ارحان ایک مقامی ریسٹورنٹ میں گیٹار بجانے کی ملازمت کرنے لگتا ہے جو سبینہ (سونیا جہاں) کی ملکیت ہوتا ہے، ایک شائستہ دلفریب اڈھیر عمر خاتون جوخود بھی اتنی تنہا ہوتی ہے کہ ارحان کو اپنے گیسٹ روم میں رہنے کی پیشکش کردیتی ہے۔

تینوں مرکزی کردار موسیقی کے میدان میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر نادر کے والدین اپنے بیٹے پر زور ڈالتے ہیں کہ وہ ڈرمر بننے اور منیزے سے شادی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔ تو نادر منیزے کا انتخاب کرتا ہے (یقیناً وہ اس سے واقف نہیں ہوتی) اور اپنے شوق سے دستبرداری اختیار کرکے کارپوریٹ شعبے کا غلام بن جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران وہ اپنی ہونے والی بیوی اور اپنے بہترین دوست ارحان سے دوری اختیار کرلیتا ہے۔

یہ دوست خاندان، دوستی اور کیرئیر سے وفاداری اور اپنی پھلتی پھولتی اناﺅں کے باعث الگ ہوجاتے ہیں۔

کاسٹ کا بہترین انتخاب

جیسا پلاٹ سے عندیہ ملتا ہے کہ ہو من جہاں خاندانی تقاریب ، دوستانہ ملاقاتیں اور چائے ڈھابے پر ملنے جیسی دنیا پر مشتمل ہے۔ یہ جامی کی مور یا عدنان سرور کی شاہ کی کہانیوں سے بالکل مختلف ہے۔

کاسٹ نے اپنا کام مناسب طریقے سے کیا ہے اور حقیقی دنیا اور پریوں کے دیس کے درمیان کی باریک لکیر پر چلتے ہوئے اپنے کرداروں کا توازن برقرار رکھا ہے۔

ارحان کے روپ میں شہریار منور کی اداکاری واقعی زبردست رہی ہے۔حس مزاح سے بھرپور سخت حالات کا سامنا کرنے والے گھر کے لڑکے کے روپ میں شہریار نے اس کردار کو اپنا ثابت کردیا۔ ارحان بلاشبہ ہو من جہاں کا محور کی حیثیت رکھنے والا کردار ہے اور شہریار نے اس کے ساتھ انصاف کیا ہے۔

ایک حالیہ انٹرویو کے دوران شہریار نے بتایا تھا کہ عدیل حسین ابتدا میں ارحان کا کردار ادا کرنا چاہتے تھے، مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا کیونکہ میں سنجیدہ اور بے نیاز عدیل ارحان کا کردار ادا کرتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔

عدیل حسین بطور نادر ایک اہل مگر قابل پیشگوئی انتخاب تھے حالانکہ یہ ان کے کردار کے باعث تھا نہ کہ عدیل کی اداکاری کی صلاحیت کے باعث۔

ماہرہ خان بطور منیزے کسی معمے سے کم نہیں تھیں۔ یہ ان کے سابقہ کردارون سے بالکل مختلف تو نہیں تھا۔ منیرے ایک لازمی 'اچھا' کردار تھا جو حالات کے مطابق ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ یہ آلودگی سے پاک 'اچھائی' اس کے نادر کے ساتھ رومان میں بھی واضح ہوتی ہے جو کیمسٹری سے محرومی ہوتا ہے۔ مجھے تو اس وقت تک حیرت ہوئی جب منیزے نے نادر کی شادی کی پیشکش قبول کرلی۔ میرا خیال تھا کہ منیزے اور ارحان کا جوڑا بنے گا۔

ماہرہ اسکرین پر اچھی نظر آئیں، ان کے پاس ایک مخصوص مقناطیسی قوت ہے اور یقیناً کیمرے کو بھی ان سے محبت ہے۔ اب تو وہ اچھی لڑکی کے طور پر خود کو منوا چکی ہیں مگر مجھے حیرت ہوتی ہے آخر وہ خود کو کب تک اس طرح کے کرداروں میں آزماتی رہے گی۔

سونیا جہاں بطور پرکشش اڈھیر عمر خاتون کے روپ میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ سیکس اپیل کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ان کا کردار سبینہ آسان جبکہ ارحان سے تعلق قابل قبول تھا۔

ہو من جہاں کی معاون کاسٹ زبردست تھی اور مختصر کردار بھی اچھے تھے۔ اگر آپ فواد خان کے پرستار ہیں تو جان لیں کہ انہوں نے بھی سونیا کے دوست رافیل کے روپ میں ایک مختصر کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر مزیدار چیز حمزہ علی عباسی کا فقیر بننا تھا مگر ان کو پہچاننے کے لیے کافی غور کرنا ہوگا کیونکہ وہ لگ بھگ ناقابل شناخت ہیں۔

معاشرتی پیغام کی خوبیاں اور خامیاں

اگرچہ ہو من جہاں کوئی بہت زبردست سماجی پیغام دینے کے حوالے سے جوش و جذبہ نہیں رکھتی مگر اس میں متعدد سماجی مسائل کا حوالہ دیا گیا ہے جو روزمرہ کی زندگیوں میں سامنے آتے ہیں۔

ایک چیز پاکستانی معاشرے کی گہرائی میں جگہ بنالینے والا طبقاتی نظام ہے۔ اس کا ثبوت اس وقت ملتا ہے جب نادر کی ماں کمتر سماجی معاشی حیثیت پر ارحان کو حقارت سے دیکھنے لگتی ہے۔

تاہم میرا خیال ہے کہ فلم میں آج کے پاکستان کو درست انداز میں بیان کرنا زیادہ دلچسپ ہوتا جس میں کسی فنکارانہ کیرئیر کے لیے کوشش اور کامیابی وغیرہ (چاہے وہ موسیقی، اداکاری یا آرٹ سے تعلق رکھتے ہو) سماجی تحرک کا موقع فراہم کرتا۔

اب میوزیشنز شادی ہالوں تک ہی محدود نہیں رہ گئے، ہو من جہاں واضح کرتی ہے پلیٹ فارمز جیسے کوک اسٹوڈیو اور مقامی فلمیں کسی باصلاحیت نوجوان کو مشکل حالات سے نکال کر اوپر لاسکتی ہے اور وہ شہرت اور سماجی قبولیت کی جانب پیشرفت کرسکتے ہیں۔

ہو من جہاں کے اختتام پر واضح ہوتا ہے کہ اگر ارحان موسیقی میں کامیابی کو آگے بڑھاتا ہے تو وہ جلد نادر کے برابر ہوگا۔

اور اسکرین پر یہ دیکھنا کافی فرحت بخش تھا۔

فلم کا زیادہ مایوس کن پیغام وہی تھا جو ایک عام خیال ہے یعنی مرد اور خواتین کبھی بھی ' صرف دوست' نہیں ہوسکتے۔

اسے ایک بار پھر بڑی اسکرین پر دیکھنا مایوس کن تھا، یعنی مثالی حد تک سمجھدار مرد اور خواتین مل سکتے ہیں، ایک دوسرے سے خیالات اور ارادوں کا تبادلہ کرسکتے ہیں، اپنے آزادانہ خواب اور امیدیں رکھتے ہیں مگر پھر بھی 'محبت میں گرفتار' ہونے سے نہیں بچ سکتے۔

مجھے اس پر اعتراض نہیں ہوتا اگر صرف نادر اور منیزے ہی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوتے مگر بدقسمتی سے فلم کے آخر میں ارحان بھی منیزے سے محبت کرنے لگتا ہے۔

محبت کی اس تکون کے حوالے سے کچھ ناخوشگوار بھی جڑا ہوا ہے، اور یہ صرف اس لیے نہیں کیونکہ دبایا گیا، والدین کے شکوک و شبہات پر مشتمل رویے جو اپنے بچوں اور بچیوں کو اسکول/ کالج/ مخلوط تعلیم کے سیشنز پر جانے سے روکتے ہیں بلکہ اس لیے کہ یہ ہانپتا ہوا ' پیار ' ہے۔

فلم کے ہدایتکار کا کام

عاصم رضا کی ڈائریکشن ہو من جہاں کی محفوظ و سکھی اور جگمگاتی دنیا کی عکاس ہے۔

تمام شوخ رنگ، تیز دھاریں ، صاف اور چٹ پٹے شاٹس، ہو من جہاں میں جو کمی ہے اس کی وضاحت میں ماحول ہی کرسکتی ہوں۔ اگر آپ اس کو قبول کرلے تو فلم کا مجموعی تاثر خوشگوار ہے جو ہر چیز کو جگمگا دیتا ہے یہاں تک کہ کراچی کو بھی۔

تاہم فلم کی موسیقی کے سیکونس کو زیادہ موثر طریقے سے شامل کیا جانا چاہئے تھا۔

آخری فیصلہ

میں ہو من جہاں کے بارے میں زیادہ جوش محسوس کرتی اگر فلم کا اختتام کسی ٹی وی ڈرامے کی سطح پر نہ ہوتا۔

بدقسمتی سے ایسا ہوا، میں اس بارے میں زیادہ تو نہیں بتاتی مگر یہ جان لیں کہ ایک کردار کا انجام ہسپتال میں ہوتا ہے، کوئی مرجاتا ہے، متعدد آنسو بہائے جاتے ہیں اور بہت زیادہ ڈراما ہوتا ہے۔

میں ہو من جہاں کی ٹیم کو اس کا مکمل ذمہ دار قرار نہیں دے سکتی۔ جذبات کے اظہار کی جانب ہمارا فطری میلان ایک کم ترقی یافتہ فلمی صنعت کا نتیجہ ہے۔ ہمارے اندر ناظرین کے لیے ہمت، تجربہ یا یقین نہیں کہ وہ لطافت پر یقین کرکے بات سمجھ لیں گے۔ ایک مسئلہ فلموں کی تعداد کا بھی ہے۔ کم فلموں کی تیاری سے کوئی بھی ایک ٹیم کے اضطراب کو سمجھ سکتا ہے جسے کسی ایک پراجیکٹ کی کہانی میں متعدد ٹوئیسٹ اور پیغامات دینا ہوتے ہیں۔

مجموعی طور پر میں ہو من جہاں کو دیکھ کر لطف اندوزہوئی۔ جو عنصر اسے زندہ کرتا ہے وہ فیملی انٹرٹینمنٹ ہے۔ نوجوان کاسٹ اچھی، پرمزاح اور ہیڈسم ہے۔

اور ہاں اگر اس میں زندگی کی تکالیف کو مصنوعی جگمگاہٹ سے دبا دیا گیا تو کیا ہوا۔ شہریار کے کردار ارحان ایک نازک نقطے کی جانب توجہ مرکوز کراتا ہے ' اس ملک کے عوام کسی کی کامیابی پر کبھی خوش نہیں ہوتے'۔ یہ سچ ہے تو اختتام پر میں صرف یہ کہنا چاہوں گی :

ہو من جہاں اپنے تفریح کے مقصد میں کامیاب رہی اور میں اس پراجیکٹ کا حصہ بننے والے ہر فرد کے لیے خوش ہوں۔ اس فلم کو دیکھنے جائیں یہ آپ کو پسند آئے گی۔

انگلش میں پڑھیں


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Muhammad Yaseen Jan 01, 2016 09:38pm
فلم کا کچھ نہیں کہہ سکتا مگر یہ ریویو بہت کھوکھلہ اور عجلت میں لکھا لگتا ہے نہ تو اس میں ڈھنگ سے تنقید کی گئی نہ ہی تعریف ۔۔۔۔ لکھاری نے صرف اور صرف شہریار کی تعریفوں کےپل باندھے ۔۔ فلم کے حوالے سے اگر اتنی سچی تعریف یا تنقید کی جاتی تو پڑھنے کو شاید کچھ نیا ملتا ،،، امید ہےحمنہ زبیر آئندہ غیر جانبدار ہوکر لکھیں گی ۔ شکریہ
سکندر ذوالقرنین چیمہ Jan 02, 2016 12:28am
میڈم پہلی بار آپ کی کوئی تحریر پڑھی ہے، لفظوں کا چناؤ اور بات کو لمبا کرنا بہتر لگا، مگر آپ نے آخر تک یہ واضح نہیں کیا کہ آپ فلم کی تعریف کر رہی ہیں یا نہیں. سب کچھ پڑھ کے مجھے اس فلم میں کچھ نیا محسوس نہیں ہو، وہ ہی پرانی کہانی ایک لڑکی دو لڑکے،ایک غریب ، ایک امیر،اور اگر آپ نے انڈین فلم دل چاہتا ہے دیکھی ہو تو اس میں بھی دوست کچھ ایسے ہی تھے. میں نہیں سمجھتا کے ماہرہ خان کی خوبصورتی اور انداز فلموں کے لیے بہتر ہے وہ پاکستانی ڈراموں میں ہی اچھی لگتی ہیں. اور آپ نے فلم کے میوزک پر کوئی بات نہیں کی اور جہاں تک میری ناقص راے ہے فلم کے ٨٠% گانے بقواس ہیں. یہ میری ذاتی راے ہے.
راشد Jan 02, 2016 10:08am
لگتا ہے لکھاری فلم دیکھ کر شش و پنج میں ہیں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہیں۔ گھما پھرا کر دائروں میں لکھا ہوا ہے تبصرہ ہے یہ