ہائیڈروجن اور ایٹم بم کیا ہیں؟

اپ ڈیٹ 07 جنوری 2016
جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹمی حملوں کے نتیجے میں دو لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے—فائل فوٹو۔
جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکی ایٹمی حملوں کے نتیجے میں دو لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے—فائل فوٹو۔

شمالی کوریا نے بدھ کو ہائیڈروجن بم کے کامیاب تجربے کا دعویٰ کیا اور اگر یہ درست ہے تو اب اس کا شمار ان چند ممالک میں ہوگا جن کے پاس یہ خطرناک ہتھیار موجود ہے۔

دنیا میں موجود ایٹمی ہتھیار عموماً دو اقسام کے ہیں یعنی ایک ایٹم بم (اے بم) جو کہ جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا نے برسائے تھے اور دوسرے زیادہ خطرناک قسم کے ہائیڈروجن بم جنہیں تھرمو نیوکلیئر بم (ایچ بم) کہا جاتا ہے۔

ان ہتھیاروں کی تیسری قسم 'ان ہینس ریڈی ایشن (ای آر)' کہلاتی ہے جنہیں ماضی میں نیوٹران بم بھی کہا جاتا تھا لیکن اب ان زیادہ استعمال نہیں کیا جاتا۔

کس کس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں؟

اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین، روس اور امریکا کے پاس آفیشل طور پر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جب کہ پاکستان اور ہندوستان بھی ایسے ممالک شامل ہیں جو کہ ان ہتھیاروں کا تجربہ کر چکے ہیں. اسرائیل کو بھی ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے تاہم اس نے کبھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا۔

ایٹم بم (اے بم )

ایٹم بم طبیعات کے قانون نیوکلیئر فشن پر کام کرتے ہیں جس میں یورینیم کا ایٹم ایک سے زائد زرات میں تقسیم ہو کر بڑے پیمانے پر توانائی کا اخراج کرتا ہے۔ اس ہتھیار کا سب سے پہلا تجربہ امریکا نے جولائی 1945 میں نیو میکسیکو میں کیا تھا۔

تجربے کے فوری بعد امریکا نے یورینیم کو بطور ایندھن استعمال کرنے والے ایٹمی ہتھیار کے ذریعے جاپان کے شہر ہیروشیما کو تباہ کیا۔ اُس بم کی طاقت 15 کلوٹن تھی۔

اس حملے کے تین دن بعد امریکا نے جاپان کے شہر ناگا ساکی کو بھی ایٹم بم سے نشانہ بنایا مگر اس دفعہ استعمال کیے گئے ایٹم بم کا ایندھن پلوٹینیم پر مشتمل تھا۔

سابقہ سپر پاور سوویت یونین نے بھی اپنے پہلے ایٹمی ہتھیار کا تجربہ اگست 1949 میں قازقستان کے صحرا میں کیا۔

ہائیڈروجن بم (ایچ بم)

ہائیڈروجن یا تھرمو نیوکلیئر بم طبیعات کے قانون فیوزن پر کام کرتا ہے جس میں دو نیوکلائی کے مل کر ایک ہونے سے توانائی کا اخراج ہوتا ہے جس درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ سورج میں بھی یہ عمل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اس سے توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔

ہائیڈروجن بم کا پہلا تجربہ امریکا نے مارشل نامی جزائر پر یکم نومبر 1952 میں کیا جب کہ سوویت یونین نے 30 اکتوبر 1961 کو ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا۔

ابھی کسی بھی جنگ میں ہائیڈروجن بم استعمال نہیں کیا گیا لیکن دنیا میں اس وقت موجود ایٹمی ہتھیاروں کی اکثریت انہی ایچ بموں پر مشتمل ہے۔

ای آر ہتھیار:

یہ ہتھیار ایچ بموں کے تھرمو نیوکلیئر قانون پر کام کرتے ہیں لیکن انہیں ایسے ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ ان سے توانائی کے بجائے طاقت ور شعاعیں خارج ہوتی ہیں جن سے عمارتوں، پلوں اور دیگر چیزوں کو تو نقصان نہیں پہنچتا مگر تمام انسان و حیوان ان سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں