اعلیٰ تعلیم کا رجحان ملک میں اس وقت تیزی سے پھیلا جب ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان وجودمیں آیا اور اس کے ساتھ ہی اعلیٰ نوکریوں پر تعیناتیوں کے لیے ایم فل یعنی ماسٹر آف فلاسفی کی ڈگری متعارف کروائی گئی۔ جامعات میں نوکری کے حصول کے لیے شرط عائد کر دی گئی کہ ایم فل کی ڈگری کا حامل ہونا لازمی ہے، حتیٰ کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھی پاکستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی کھپت کا آغاز ہونے لگا۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے اپنے تعلیمی دائرے کو جب سیاستدانوں کی ڈگریوں کی تصدیق تک پہنچایا تو سیاستدانوں نے پہلے بذریعہ اٹھارہویں ترمیم تعلیم کو صوبوں کے حوالے کر دیا، اور پھر اس ترمیم کے تحت پنجاب اور سندھ نے اپنے اپنے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن بنا لیے۔ سندھ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین آج کل نیب کی حراست میں کرپشن کے الزامات سے لڑ رہے ہیں لہٰذا سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن غیر فعال نظر آتا ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کو متحرک کرنے کی کوشش میں ہے لیکن یہاں پر اس کا صوبے کی طاقتور بیوروکریسی کے ساتھ مقابلہ ہے۔ دوسری جانب حکومت نے یہ حماقت کی کہ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے آئین میں ایسی شقیں شامل کروائی گئیں، جس سے صوبے میں نجی تعلیم کے نئے کاروباری رجحان کو قانونی چھتری فراہم کر دی گئی۔ اب پنجاب میں اعلیٰ تعلیم کے پھیلاؤ اور اس کے کنٹرول کے لیے تین ادارے کام کر رہے ہیں۔

طاقتور اور مضبوط ترین ادارہ محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب جس کی کمان بیوروکریسی کے ڈی ایم جی افسران کے پاس رہتی ہے، اس کے دائرے میں صوبے کے 540 سے زائد سرکاری کالجز اور 21 سرکاری جامعات آتی ہیں۔ پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان، جو صوبے کی تمام جامعات کو مالی معاونت فراہم کرتا ہے اور بھاری فنڈز دے کر تحقیق کی ذمہ داری کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے اور اب نئی نویلی پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن جو شراکت داری کے تحت صوبے میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے قانونی جواز پیدا کرنے کی کوشش میں ہے۔

سیاستدانوں کی حماقتوں اور کم عقلی کے باعث اب یہ تینوں ادارے اپنی اپنی طاقت کے تحت جامعات اور کالجوں کو قابو کرنے کے درپے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کا اس قدر پیچیدہ ڈھانچہ شاید ان کم عقل مگر مفاد پرست سیاستدانوں کے علاوہ اور کسی کے ذہن میں نہیں آ سکتا۔ یونیورسٹیوں کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کو ذمہ داری سونپ رکھی ہے جب کہ اس کمیشن کے پاس آئینی طور پر یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ جامعات کے انتظامی ڈھانچوں میں کسی قسم کی مداخلت کر سکے۔

جامعات میں وائس چانسلرز کی تعیناتی سیاسی مداخلت کی مرہون منت ہے اور اس میں ایچ ای سی کو مداخلت کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اب ایچ ای سی نے اپنے آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ نجی یونیورسٹیاں اپنے ذیلی کیمپس کھولنے کی مجاز نہیں ہیں اور نہ ہی یہ یونیورسٹیاں دیگر نجی کالجوں کا اپنی یونیورسٹیوں کے ساتھ الحاق کرنے کا قانونی حق رکھتی ہیں۔

ایچ ای سی کی اس پابندی کے باعث تعلیم کو کاروبار بنانے کے خواہاں افراد پر قدغن لگی ہوئی ہے، جسے ہٹانے کے لیے پنجاب کے سیاستدانوں نے صوبائی ایچ ای سی کو یہ اختیار سونپ دیا ہے کہ وہ آئین کے تحت نجی یونیورسٹیوں کو اپنے ذیلی کیمپس بنانے اور نجی کالجوں کو بھی اپنے ساتھ الحاق کروانے کی اجازت دے سکتا ہے اور اس کے لیے ایچ ای سی پاکستان سے پیشگی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اعلیٰ تعلیم کو کاروبار بنانے کا یہ پہلا وار خود سیاستدانوں نے کیا اور اداروں کو آپس میں قانونی طور پر ایک دوسرے کے متضاد کھڑا کر دیا۔ اس چال بازی کا کریڈٹ پنجاب کی افسر شاہی کو جاتا ہے جس نے ایچ ای سی کو بے اثر کیا، کیونکہ پی ایچ ای سی کے آئین و ایکٹ کی تیاری اسی محکمہ ہائر ایجوکیشن کی افسرشاہی نے کی۔

پنجاب کی بر سر اقتدار سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز نے پنجاب ایچ ای سی کی حوصلہ افزائی کرنے کا آغاز کیا تو اس کے پہلے چیئرمین جناب ڈاکٹر نظام الدین نے محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب پر حملہ کر دیا اور وہاں پر موجود نجی یونیورسٹیوں کا سارا سرکاری ریکارڈ منگوا کر اپنے قبضے میں رکھ لیا۔ یہ انتہائی اقدام اٹھانے کے لیے چیئرمین نے پی ایچ ای سی کے آئین کا سہارا لیا۔

بس پھر کیا تھا، پنجاب کی افسر شاہی جو بنیادی طور پر اعلیٰ تعلیم کو نقصان پہنچانے کی ذمہ دار ہے، اس افسر شاہی نے سولہویں گریڈ کے سیکشن آفیسر کے ذریعے بائیسوویں گریڈ کے چیئرمین کو خط لکھوا دیا کہ ازراہ کرم نجی یونیورسٹیوں کے جس ریکارڈ پر قبضہ کر رکھا ہے وہ فوری طور پر واپس پہنچایا جائے وگرنہ۔

اس خط کا جوابی خط ابھی تک چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے نہیں لکھا گیا۔ اداروں کے درمیان تصادم کا یہ چکر یہیں نہیں رکتا بلکہ اس کی اثر پذیری میں اضافہ ہونے جا رہا ہے کیونکہ صوبائی حکومت نے جو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت لاہور میں گیارہ جامعات کے ذیلی کیمپسز کھولے، انہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

سیاسی حکومت نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر تعلیم رانا مشہود کی نگرانی میں ایسی کمیٹی بنائی جس میں چیئرمین پی ایچ ای سی کو شامل کیا گیا تاکہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ان غیر قانونی کیمپسز کو قانونی شکل دینے کی گنجائش پیدا کی جاسکے۔

پنجاب کے دل لاہور میں حکومت مستقبل میں نالج پارک بنانے کے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے بے قرار ہے۔ عالمی نوعیت کے اس منصوبے میں محکمہ ہائر ایجوکیشن کی بیوروکریسی نے تمام تر سرکاری و دفتری ریکارڈ کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے بلکہ جو چھ جامعات لاہور میں آکر اپنے کیمپس کھولنے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں ان کے ساتھ خطوط کے ارسال کا ریکارڈ بھی اسی بیوروکریسی نے خفیہ رکھا ہوا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کی سرپرستی میں تیار ہونے والے اس نالج پارک کے منصوبے میں پی ایچ ای سی کے چیئرمین کی حیثیت محض علامتی ہے، جبکہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں یونیورسٹیوں کے ساتھ نالج پارک کے حوالے سے بات چیت کرنے کی غرض سے لندن اور اسکاٹ لینڈ میں لنگر انداز ہونے والے قافلے میں محکمہ ہائر ایجوکیشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر سیف، صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود احمد خان ہی شامل ہوتے ہیں۔ قانونی طور پر تو پی ایچ ای سی صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے معاملات کی نگرانی کی ذمہ دار ہے لیکن صرف علامتی طور پر۔

محکمہ ہائر ایجوکیشن کی بیوروکریسی اور پنجاب کے حکمران مل کر اعلیٰ تعلیم کو کاروباری شکل دینے کے لیے نجی تعلیمی اداروں کے تصور کی سرپرستی کرنے پر عمل پیرا ہیں۔ صوبے میں نجی اداروں کی آبیاری کرنے سے جہاں ایک طرف اعلیٰ تعلیم مہنگی ہوگی، وہیں اس کے ساتھ ساتھ جامعات کی سرکاری سرپرستی میں بھی مزید کمی ہوسکتی ہے۔

اسکول سے لے کر کالج تک ہمارا نظام تعلیم پہلے ہی طبقاتیت پر مبنی ہے جو نوجوانوں کے اذہان کی تقسیم کا موجب بن رہا ہے، اور اب اعلیٰ تعلیم میں گروہیت کے رجحان سے اس تقسیم میں مزید اضافہ ہوگا اور متوسط گھرانوں کے بچوں کے والدین کے لیے یہ مہنگی تعلیم برداشت کرنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔

پنجاب کی حکومت آئین و قانون کے وضع کردہ دائرے کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے محکموں کو کام کرنے دے تو تضادات بھی پیدا نہیں ہوں گے اور اعلیٰ تعلیم کا درست سمت میں تعین ہوسکے گا۔ تین اداروں کو ایک ہی اختیار دینے سے جو مسائل جنم لے رہے ہیں، ان کا واحد حل یہی ہے کہ ہر ادارے کا دائرہ اختیار ایک دوسرے سے مختلف ہو، تاکہ کوئی کسی کے کام میں مداخلت نہ کر سکے۔ کیا ذمہ داران اتنی سادہ سی بات بھی خود سمجھنے سے قاصر ہیں؟

تبصرے (1) بند ہیں

qurban Jan 16, 2016 06:43am
what about 'privatization' of politics in Pakistan as well as PML-N politicians have proved themselves totally inept, corrupt and dishonest to the core.