پشاور سدا سے میرے دل میں رہتا ہے، مگر اسلام آباد میں کئی برس گزارنے کے باوجود میں کبھی بھی اس شہر کا سفر نہ کر سکا اور نمک منڈی، قصہ خوانی بازار اور باب خیبر کو دیکھنے کی خواہش دل میں مچلتی رہی۔ دسمبر کے آخری دنوں میں بچوں کی چھٹیوں میں چار شہروں کی سیر کا پروگرام بنایا تو پہلا پڑاؤ پشاور تھا۔

لاہور سے رات گئے پشاور کے لیے رخت سفر باندھا اور لگ بھگ پانچ گھنٹے بعد منہ اندھیرے پشاور پہنچے، جہاں فجر کی اذانوں اور ہلکی سی خنکی نے ہمارا استقبال کیا۔ نمک منڈی کا بازار ابھی بیدار نہیں ہوا تھا اور سورج پہلی انگڑائی لے رہا تھا کہ ہم اپنے ہوٹل پہنچ گئے جو نمک منڈی کے عین وسط میں واقع تھا۔ دو گھنٹے سستانے کے بعد بچوں کے جوش و خروش کو ٹھنڈا کرنا دشوار تھا، جو باب خیبر دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔

نمک منڈی میں روایتی پراٹھوں اور چائے کے ساتھ چارپائیوں پر بیٹھ کر ناشتہ کیا، جس کا ذائقہ ہمیشہ کے لیے زبان پر محفوظ ہوگیا اور حیرت بھی ہوئی کہ گھی میں لتھڑے ہوئے ان پراٹھوں نے ذرا بھی بھاری پن پیدا نہیں کیا، بلکہ چائے اور پراٹھوں نے پشاور کی سیر اور ایک مصروف دن کے لیے پوری طرح ہشاش بشاش کردیا۔

پشاور جائیں تو نمک منڈی میں چائے پراٹھے کا ناشتہ ضرور کریں.
پشاور جائیں تو نمک منڈی میں چائے پراٹھے کا ناشتہ ضرور کریں.

باب خیبر جانے کے لیے اکثر ٹیکسی ڈرائیوروں نے انکار کردیا جس کا سبب اس علاقے کی حساسیت تھی، مگر ایک ٹیکسی والا ہمیں وہاں لے جانے پر راضی ہوگیا۔ شہر سے نکلتے ہوئے قلعہ بالہ حصار ہمارے دائیں جانب تھا جو فوج کے کڑے پہرے میں تھا، جس کے باعث وہاں رُک کر فوٹوگرافی نہ کی جاسکی۔

زیر تعمیر شوکت خانم ہسپتال بھی ہمارے راستے تھا جبکہ کارخانو بازار کے نزدیک کابل جانے کے لیے لاریاں بھی تیار تھیں اور پرائیویٹ گاڑیوں کے ڈرائیور بھی لپک لپک کر کابل جانے کے خواہشمند مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے تھے۔ جوں جوں ہم بابِ خیبر کے قریب پہنچ رہے تھے ویسے ویسے ڈرائیور اس علاقے کی حساسیت کے بارے میں کہانیاں بھی سنا رہا تھا جنہوں نے پچھلی نشست پر بیٹھی میری اہلیہ کو کسی حد تک خوف زدہ کردیا۔

خیبر ایجنسی کی جانب جاتے ہوئے جمرود کے مقام پر قائم ’’باب خیبر‘‘ محراب کی شکل میں بنا ہوا دروازہ ہے جو افغانستان کی طرف سے آتے ہوئے پشاور کا داخلی راستہ بھی ہے، جس کی ایک جانب سول ہسپتال اور دوسری جانب قلعہ جمرود کی جانب جاتی ہوئی سڑک ہے۔ تاریخی اہمیت کے حامل باب خیبر کی تصاویر اب تک صرف درسی کتب میں ہی دیکھی تھیں، اس لیے اپنی آنکھوں کے سامنے یہ تاریخی دروازہ دیکھ کر میں بھی بچوں کی طرح پرجوش ہوگیا تھا۔

بابِ خیبر افغانستان کی طرف سے آتے ہوئے پشاور کا داخلی راستہ ہے.
بابِ خیبر افغانستان کی طرف سے آتے ہوئے پشاور کا داخلی راستہ ہے.

واپسی پر ’کارخانو بازار‘ رکنا لازمی ہوگیا تھا جہاں مختلف چھوٹے بازاروں میں دنیا بھر کی اشیا قدرے سستے داموں دستیاب تھیں۔ لگ بھگ ڈھائی بجے کے قریب ہوٹل کے بالکل سامنے ایک چھوٹی مگر مشہور دکان پر چپل کبابوں سے لطف اندوز ہوا گیا جس کا ذائقہ ہی الگ تھا۔ روایتی طور پر کم مرچوں کے حامل کبابوں اور گرم گرم روٹیوں نے مزا دوبالا کردیا۔ ادھیڑ عمر دکان دار نے بتایا کہ سڑک چوڑی کرنے کے باعث اس کی دکان سکڑ گئی ہے مگر پشاور کے لوگوں کے دل تنگ نہیں ہیں جنہوں نے ہر جگہ ہمیں بڑے دل اور کھلی بانہوں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔

چپل کباب کھانے کے بعد چپل مارکیٹ کا رخ کیا جو ہوٹل کے دائیں جانب واقع تھی۔ یہاں ہاتھ سے بنائی جانے والی پشاوری چپلوں کی متعدد دکانیں تھیں مگر ان میں نمایاں ترین افغان چپل اسٹور المعروف ’’کپتان اسپیشل پشاوری چپل‘‘ تھا جس کی وجہ شہرت یہ تھی کہ اس دکان کے مالک چچا نورالدین کو پاکستانی ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کے لیے چپل بنانے کا ’اعزاز‘ حاصل تھا۔

ہم نے بھی اس دکان سے سیاہ رنگ کی پشاوری چپل خریدی جو ہمیشہ مجھے اس خوبصورت شہر اور چچا نور الدین کی جانب سے روایتی قہوے سے کی گئی تواضع کی یاد دلاتی رہے گی۔

شام کو صدر بازار کی رونقوں سے لطف اندوز ہوئے جس کی مرکزی شاہراہ پر بڑے بڑے برانڈز کی آؤٹ لیٹس ہیں مگر صدر بازار کا اندرونی حصہ لاہور کی انارکلی کا منظر پیش کرتا ہے ۔ صدر سے بچوں کے لیے شاپنگ کی گئی جس میں خوبصورت چترالی ٹوپی بھی شامل تھی، مگر سوات کی شالوں کے لیے ہمیں قصہ خوانی بازار کا رخ کرنا پڑا جہاں دکانوں پر کھلی چائے کی پتی نے فضا میں انوکھی مہک پھیلائی ہوئی تھی، جبکہ تاریخی اہمیت کی حامل مسجد قاسم خان بھی اسی قصہ خوانی بازار میں واقع ہے جہاں اکثر عید کا اعلان ایک دن پہلے کر دیا جاتا ہے۔ قصہ خوانی بازار آنے کا قصد اس لیے بھی کامیاب رہا کہ بیگم صاحبہ کو ان کی من پسند سواتی شالیں بھی مل گئیں اور اس کامیابی کا جشن بیگم نے تین شالیں خرید کر منایا۔

مسجد قاسم علی خان پشاور کے قصہ خوانی بازار میں واقع ہے.
مسجد قاسم علی خان پشاور کے قصہ خوانی بازار میں واقع ہے.

میں نے اس سفر کو کافی حد تک خفیہ رکھنے کی کوشش کی مگر کسی طرح اس کی بھنک پشاور پینتھرز کرکٹ ٹیم کے کپتان زوہیب خان کو پڑ گئی جنہوں نے رات کو ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع ریسٹورنٹ شیراز رونق میں بوفے ڈنر کی دعوت دے ڈالی، جہاں افغانی بار بی کیو نے بھوک ختم ہونے کے باوجود ہاتھ رکنے نہ دیے، مگر اختتام پر روایتی چینک اور پیالیوں میں پیش کیے گئے قہوے نے سب حساب برابر کردیا۔

آدھی رات کو ہوٹل واپس آنے کے بعد یہ بھی یاد نہیں کہ کب نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اگلی صبح نمک منڈی کے محلوں کی سیر اور روایتی ناشتے سے لطف اندوز ہونے کے بعد اسلام آباد کا رخ کیا مگر گاڑی میں سوار ہونے سے قبل مشہور کابلی پلاؤ نے پشاور میں گزرے 32 گھنٹوں کا اختتام بہترین انداز میں کیا۔

پشاور سے جاتے وقت سب کے چہروں پر ایک اداسی تھی مگر اس خوبصورت شہر میں گزارے گئے چند گھنٹے ہمیشہ کے لیے یادوں کی سرزمین پر پھول بن کر مہکتے رہیں گے۔

تبصرے (3) بند ہیں

ایاز احمد لغاری Jan 23, 2016 01:03pm
بہت اچھا بلاگ ہے، یوں لگا کہ لکھاری کے ساتھ ہم بھی سفر میں ہوں اور ان کے ساتھ لذیذ کھانے کھا رہے ہوں۔
Arshad Yusufzai Jan 23, 2016 11:06pm
Superb piece by Farhan Aziz. He presented anaccurate visualisation of what he saw and experienced. I would want to just a tiny mistake and that is the "Chapal" kabab. The proper name is "Chapli Kabab". I also wish Farhan and his family should have tried the "Charsi Tikka Karahi" or "Dam Pokh". These two delicacies are also available in Islamabad but the taste here is unmatched. Last but not least, I wish i too could have hosted a guest n his family like Zaibi ( Zohaib Khan ). Chalo next time. Impressive work Farhan Aziz.
KH Jan 24, 2016 10:28am
very nice