اگر باچا خان یونیورسٹی پر طالبان حملے سے دہشت گرد حملے روکنے میں ٹھوس انٹیلیجنس کی کمی کا پتہ چلتا ہے، تو اس کے ساتھ سکیورٹی کے لیے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات میں ذہانت کی کمی نظر آتی ہے۔

بلکہ یہ کہنا بھی تھوڑا ہوگا۔

کئی پریشان کن اور غیر معقول فیصلوں، جیسے کہ طالبعلموں کی حفاظت کے لیے خود اقدامات کرنے کے بجائے اساتذہ کو ہتھیار فراہم کرنا، کے بعد انہوں نے ایک بار پھر ایک بے تکی ہدایت جاری کی ہے۔

پشاور کے پرائمری اور سیکنڈری تعلیمی محکموں نے تمام اسکولوں کو یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ اگر کسی اسکول کے چوکیدار کو ہتھیار چلانا نہیں آتا تو یہ اس کے ذمے ہے کہ وہ اپنے کسی ایسے رشتہ دار (چاہے اس کی عمر رسیدہ دادی ہو) کو لے کر آئے، جسے ہتھیار چلانا آتا ہو۔ یہ معاملہ ابھی والدین اور اساتذہ کی کونسل (پی ٹی سی) سے منظور ہونا باقی ہے۔ اس ہدایت نامے میں چوکیدار کو شاٹ گن اور اسلحہ لائسنس جاری کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ محکمہ تعلیم کے لیے بھی بیزار کن ہے جس کے مطابق پی ٹی سی کے پاس ایسے ہتھیار خریدنے کے لیے فنڈز موجود نہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مقامی حکومتوں کو ہر سطح پر بھیجے گئے ہدایت نامے میں مضحکہ خیز طور پر لکھا ہے:

“ان ہدایات پر پوری طرح سے عمل کیا جائے، تاکہ صوبے بھر کے اسکولوں میں فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے”

جی ہاں، یقیناً ایک انجان شخص کے ہاتھوں میں ایک خطرناک ہتھیار تھما کر 'فول پروف' سکیورٹی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے ایک ضلعی تعلیمی افسر نے اعتراف کیا کہ یہ ان کی سمجھ سے باہر ہے کہ آخر کیوں کوئی شخص جو نہ اسکول کا ملازم ہے اور نہ ہی حکومت کا، اسکول پر دہشت گردی کے حملے کے دوران اپنی جان کو خطرے میں ڈالے گا۔

“یہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ہیڈ ماسٹر کس طرح چوکیدار کو کہے گا کہ وہ اپنے کسی ایسے رشتہ دار کو لے کر آئے جو ہتھیار اٹھا کر ایک سرکاری اسکول کی حفاظت کرے۔”

کیا اس خامی کے ہوتے ہوئے کوئی دہشت گرد خود کو چوکیدار کا رشتہ دار بتاتے ہوئے اندر داخل نہیں ہو سکتا؟

مایوسی کے ساتھ یہ فیصلہ پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے لیے کیا گیا ہے جہاں کے معصوم بچوں کو چوکیدار کے مسلح 'رشتہ داروں' کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

کیا چوکیدار واقعی یہ فیصلہ کرنے کا اہل ہے کہ اس کا کون سا رشتہ دار ذہنی اور جسمانی طور پر اتنا تندرست ہے کہ دہشت گرد حملے کے دوران ہتھیار اٹھا کر مزاحمت کر سکے؟

کیا واقعی بچوں کے والدین اپنے بچوں کی زندگی کو اسکول کے چوکیدار کے رشتہ داروں کے حوالے کرنے میں مطمئن ہوں گے؟

افسوس کے ساتھ یہ حکام کی غیر سنجیدگی کی اور مثال ہے، جو خود اپنا سر ریت میں دبا کر اپنا بوجھ والدین اور اساتذہ پر ڈال رہے ہیں۔

جیسا کہ تعلیمی افسر نے کہا کہ “اسکول کی سکیورٹی کی مکمل ذمہ داری غیر تربیت یافتہ چوکیدار اور اس کے رشتہ داروں پر ہوگی۔”

اسکول کے ہیڈ ماسٹرز کو مزید سکیورٹی اقدامات، جیسے کہ واچ ٹاورز کی تعمیر، بیریئرز کی تنصیب اور گارڈز کی تعیناتی کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

کیا سب لوگ بھول چکے ہیں کہ اساتذہ کا کام زبردست دفاعی حصار بنانے کے بجائے پڑھانا ہے؟ وہ اساتذہ ہیں اور جنگ لڑنے کے ماہر افراد نہیں ہیں۔

اب تک پولیس نجی اسکولوں کے صدور کے خلاف ان احکامات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے 700 سے زائد ایف آئی آر درج کر چکی ہے۔ یہ واضح ہے کہ قانون نافذ کرنے والے صوبائی ادارے تعلیمی اداروں پر ان کے حصے کا کام کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

اگر دفاعی بجٹ کی بات کی جائے تو 7.6 ارب ڈالر کے ساتھ ہم دنیا میں 25 ویں نمبر پر ہیں اور یہ ہمارے بجٹ کا تقریباً 20 فیصد ہے۔

ہم جدید ایٹمی ہتھیاروں سے لیس قوم ہیں جس کے پاس جدید ہتھیار اور انسداد دہشت گردی کی تربیت بھی ہے۔

تعداد کے لحاظ سے ہماری فوج دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے، اور اگر مہارت کی بات کی جائے، تو ہماری سکیورٹی فورسز کا شمار دنیا کی بہترین فورسز میں ہوتا ہے۔

اس سب کے باوجود خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے پاس اسکولوں کی حفاظت کے لیے سب سے بہترین منصوبہ اساتذہ اور چوکیدار کے رشتہ داروں کو مسلح کرنا ہے۔

انگلش میں پڑھیں.

تبصرے (1) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Feb 08, 2016 08:28pm
پشاور کے شعبہ تعلیم نے بونگی قسم کی ہدایت جاری کی ہے۔ ایسی ہدایات، فیصلے صرف پشاور ہی میں نہیں بلکہ تمام ملک میں عام ہیں۔ ن لیگ کی حکومت کے فیصلوں کو ہی دیکھیں کہ جس نے پچھلے سال ملتان روڈ لاہور ٹھوکر نیاز بیگ سے چوبرجی تک کشادہ کی، نالہ پکا کیا اور بیشمار بجری، پتھر، لُک کو اس سڑک پر بچھایا اور پتہ نہیں کتنا پیسہ لگا۔ اور آج کثیر سرمایہ کھانے والی یہی سڑک کو پھر سے اکھاڑ پھینکا گیا ہے میٹرو ٹرین کے لیے۔ گویا ایک سال قبل سڑک بنانے کا فیصلہ اور اس پر کثیر پیسہ لگانے کا فیصلہ غلط نکلا اور یہ سب ضائع گیا۔ یہ سب غلط فیصلے، بونگیاں صرف اس وجہ سے حکومتوں اور اداروں سے سرزد ہوتی ہیں کیونکہ انہیں مشاورت کرنے کی عادت نہیں ہے، مشاورت کو وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جس سے خود کو وہ افلاطون سمجھتے ہیں جو کہ اصل میں ‘یہ میرا دیوانہ پن ہے‘ ہوتا ہے۔ ایسے فیصلے، ایسی پالیسیاں بنانے والوں کا احتساب کیا جانا چاہیے۔