خوشامد کریں ڈاکٹر بنیں

اپ ڈیٹ 16 فروری 2016
سپروائیزر اور طالبعلم کے درمیان تعلقات کا باضابطہ معائنہ نہیں کیا جاتا جس وجہ سے سپروائیزر کسی کو جوابدہ نہیں رہتا۔ — کری ایٹو کامنز
سپروائیزر اور طالبعلم کے درمیان تعلقات کا باضابطہ معائنہ نہیں کیا جاتا جس وجہ سے سپروائیزر کسی کو جوابدہ نہیں رہتا۔ — کری ایٹو کامنز

گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں کافی ترقی ہوئی ہے اور اب پہلے سے بھی زیادہ طلباء ماسٹرز اور پی ایچ ڈی ڈگری پروگرامز میں داخلے لے رہے ہیں۔

مگر ملک میں ریسرچ کلچر اب تک غیر متاثرکن رہا ہے اور تیسرے فریق کی نگرانی کی عدم موجودگی اور معیاری پیشہ ورانہ اساتذہ کی قلت کی وجہ سے یہ مزید تنزلی کا شکار ہے۔ اس سے پاکستانی طالب علموں کی صلاحیتوں پر فرق پڑتا ہے۔

عام طور پر ریسرچ کی تربیت تب شروع ہوتی ہے جب کوئی طالب علم ایم فل یا ایم ایس کر رہا ہوتا ہے۔ کورس ورک کے علاوہ پاکستانی ادارے طالب علموں کو ریسرچ کرنے کا طریقہ سیکھنے اور مقالہ لکھنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتے۔

طالب علم میں تنقیدی سوچ اور لکھنے کے ہنر کی عدم موجودگی سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔

'شارٹ کٹ' لینا

پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا لگتا ہے۔ اکثر طالب علم مقالہ لکھنے کے لیے کسی پروفیشنل شخص کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور انہیں کثیر رقم کی ادائیگی کرتے ہیں۔ وہ اس کے دیر پا فوائد، یعنی ایک ڈگری اور ایک زبردست ترقی کے لیے زیادہ پیسے دینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

ڈاکٹر منصور*، جو کہ ایک پی ایچ ڈی اور استاد ہیں، انہوں نے اپنی صورتحال اس طرح بیان کی؛

پی ایچ ڈی میں ہر قسم کے طالب علم کو شدید محنت کرنی پڑتی ہے۔ اور وہ جنہیں ریسرچ کی سمجھ نہیں ہوتی، وہ ادھر ادھر لڑھکتے رہتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے 2 سے 4 لاکھ روپے دے کر اپنی ریسرچ کا کام کروایا ہے۔ قابل طالب علم بھی جدوجہد کرتے ہیں لیکن ان کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔

ڈگری چاہیے؟ خوشامد کریں

اس وقت سپروائیزر اور سپروائیزی (طالبعلم) کے درمیان تعلقات کا باضابطہ معائنہ نہیں کیا جاتا۔ جس وجہ سے سپروائیزر زیادہ بااختیار بن جاتا ہے جو کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوتا۔

پی ایچ ڈی کے ایک اور طالب علم، نعیم* نے مجھے بتایا؛

میرے سپروائیزر مجھے نظر انداز کرتے تھے لیکن میرا ساتھی جو ان کی خوشامد کرتا اور تحفے دیا کرتا تھا، اس کے لیے ان کے پاس ہمیشہ وقت ہوتا تھا۔ مجھے اپنی قابلیت پر یقین ہے اور میں ان کی جی حضوری نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرا ساتھی ڈگری مکمل کرچکا ہے جب کہ میری ڈگری 8 سال بعد بھی نامکمل ہے۔

اور زبردستی کے احسانات بھی

پی ایچ ڈی ڈگری کو مقررہ وقت میں مکمل کرنا بھی فکرمندی کی بات ہے کیونکہ یہاں کے نظام میں باقاعدہ ٹائم ٹیبل پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ بلکہ جن ملکوں میں ٹائم ٹیبل پر عمل کیا جاتا ہے ان کے مقابلے میں پاکستان میں دگنا وقت لگتا ہے۔ تھیسز کا حتمی مسودہ صرف اسی صورت میں جمع کروایا جاتا ہے جب سپروائیزر طالب علم سے ‘مطمئن’ ہو ورنہ اسے انتظار کرنا پڑتا ہے۔

تابش* جنہوں نے حال ہی میں اپنا مقالہ مکمل کیا ہے، نے مجھے بتایا کہ؛

میرے سپروائیزر نے مجھ پر دباؤ ڈالا کہ میں ان کے بچوں کو ٹیوشن دوں؛ ان کے زیرِ تعمیر گھر کی نگرانی کروں، اور بہت کچھ۔ انہوں نے نہایت ڈھٹائی سے واضح کیا کہ اگر میں نے ان پر یہ ”احسانات” نہ کیے تو وہ میرا تھیسز منظور نہیں کریں گے۔ تو میں نے وہی کیا جو کچھ وہ چاہتے تھے۔ آج میرے پاس میری ڈگری ہے۔

تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا طالب علموں سے اپنے لیے ریسرچ پیپر شائع کروانا بھی ایک عام عمل ہے۔ اساتذہ کو ترقی کے لیے ایک تعداد میں ریسرچ پیپرز شائع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں وہ تعداد اکثر طالب علموں کی “زبردستی“ مدد سے حاصل ہوتی ہے۔

ڈاکٹر *مسعود جو اس استحصال کے شکار ہیں بتاتے ہیں کہ؛

ایک دن میرے سپروائیزر نے مجھے بلایا اور میرے ریسرچ پیپرز کے بارے میں پوچھا۔ میں نے بتایا کہ میں ان پر کام کر رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے ان تمام پیپرز میں اپنا نام شامل کرنے اور ان کی اشاعتی فیس بھرنے کی ہدایت کی، جسے میں نے تسلیم کر لیا۔ میں جب آفس سے باہر جانے لگا تو انہوں نے کہا کہ “یہ مت بھولنا کہ کل تمہارا آخری پی ایچ ڈی سیمینار ہے۔ اور میں ہی وہ ان چارج ہوں جو تمہاری ڈگری کو مکمل کرواسکتا ہے“۔ ان کا پیغام بہت واضح تھا۔

خواتین کو تو اور بھی بھاری قیمت چکانی ہوتی ہے – یعنی جنسی احسانات۔ سرکاری اداروں میں تو صورتحال اور بھی ہولناک ہے۔

پی ایچ ڈی کی طالبہ *ثمرین نے مجھے بتایا کہ

پی ایچ ڈی میں داخلے کے بعد جلد ہی میرے سپروائیزر نے مجھے اپنے ساتھ باہر ڈنر پر چلنے کے لیے کہنا شروع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں وہ سب کروں جو وہ چاہتے ہیں، تو میرے سارے سیمینار کامیاب ہوسکتے ہیں۔ میں نے ان سے اپنے رشتے کو پروفیشنل رکھنے کی بھرپور کوشش کی مگر ان کی پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہی۔ آخرکار مجھے پی ایچ ڈی کو چھوڑنا پڑا۔ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔

2014 میں لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمس) میں ایک کیس رپورٹ ہوا جس میں شعبہ قانون کے ایک سابق استاد پر ایک طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا۔ طالبہ کے وفاقی محتسب میں شکایت درج کروانے کے فوراً بعد اس استاد کو فارغ کر دیا گیا۔

پی ایچ ڈی کرنا ایک طویل اور محنت طلب عمل ہے جس میں اکثر طالب علم گھبراہٹ اور ڈپریشن کا بھی سامنا کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایک سازگار تعلیمی ماحول اور اداروں کی فراہم کردہ مدد کسی بھی طالب علم کو یہ عمل اگر خوشی کے ساتھ نہیں، تو کم از کم کامیابی کے ساتھ پورا کرنے میں اہم ثابت ہوتی ہے۔

اوپر بتائے گئے پی ایچ ڈی طالبعلموں کے واقعات ہمارے نظام میں موجود اخلاقی کرپشن کو واضح کرتے ہیں۔ نتیجتاً ہمارے طالب علم لائبریریاں کھنگالنے، حوالہ جات دینے، وسائل تلاش کرنے اور مقالے لکھنے کے شعبے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے طالب علم اکثر تدریس کے شعبے میں جاتے ہیں، اور اپنے طالبعلموں کے ساتھ بھی وہی کچھ کرتے ہیں جو وہ خود جھیل چکے ہوتے ہیں۔

شفافیت کیسے ممکن؟

موجودہ صورتحال میں ایک مکمل جائزے اور پہلے سے بہتر قوانین کے اطلاق کی ضرورت ہے؛ ایک غیر جانبدار ادارے کو پاکستان میں ریسرچ ڈگریوں میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو پی ایچ ڈی کے طالب علموں کے ساتھ براہِ راست رابطے میں رہنا چاہیے اور تھیسز ایڈوائیزری کمیٹی قائم کرنی چاہیے جو سپروائیزر اور طالبعلم سے سال میں دو بار ملاقات کرے تاکہ ریسرچ کے جاری کام کا معائنہ اور کسی بھی درپیش مسئلے کو دور کیا جا سکے۔

اس سلسلے میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تکمیل کا ٹائم ٹیبل بھی مددگار ثابت ہوگا جس سے سپروائیزر اور طالب علم، دونوں ہی حتمی وقت کا تعین کر سکیں گے۔ ادارے اور ایچ ای سی کو ٹائیم ٹیبل کا ریکارڈ اپنے پاس رکھنا چاہیے، اور قریبی جائزہ لینا چاہیے کہ آیا طالب علم اپنے اہداف کو حاصل کر رہا ہے یا نہیں۔

آخری مگر اہم بات یہ کہ طالب علم خود کو زبان اور تحقیقی ہنر سے آراستہ کریں۔ کسی بھی قسم کی بد انتظامی کی صورت میں وفاقی محتسب سے مدد لیں اور شکایت درج کروائیں۔

ایسا کرنے سے طالب علم نہ صرف خود کو ذلت اور استحصال سے بچا پائیں گے بلکہ استحصال کرنے والوں کا سامنا بھی کر سکیں گے۔

(*نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔)

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

Ahmed Feb 16, 2016 04:06pm
Truly described reality.
نجیب احمد سنگھیڑہ Feb 16, 2016 08:05pm
خوشامد پسندی ایکغیرسنجیدہ اور لاابالی طرز فکر کی ترجمان ہے۔ خوشامد پسندی ہر محکمے میں ٹالی کی تیسی کو چھُو رہی ہے جس کے نتیجہ میں ٹیلنٹ سامنے ہی نہیں آ پاتا اور خوشامدی لوگ ہر محکمہ میں اہلیت میں صفر ہونے کے باوجود ترقی کر جاتے ہیں۔ اداروں کی تباہی ایسے ہی خوشامدیوں کی وجہ سے ہوتی ہے اور نزلہ ہارڈورکر ملازمین پر گرتا ہے کہ ادارہ کے خسارہ میں جانے کا کارن ملازمین ہیں۔ تعلیمی شعبہ کا تو بیڑا ہی غرق ہے۔ اساتذہ خود کو طرم خان سمجھتے ہیں اور پروفیسر لفظ سے ان کی گردن مزید اکڑ جاتی ہے۔ عاجزیت، حقیقت پسندی، انصاف، میرٹ کا جب تک بول بالا نہیں ہو گا، ملک اخلاقی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی ترقی کی سیڑھی نہیں چڑھ سکے گا۔ تنقیدی سوچ پیدا ہی تب ہوتی ہےجب بغیر مفاد کے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہا جائے اور غیرقانونی، غیرمتعلقہ کام کو رد کرنے کی طاقت پیدا ہو اور خوشامد کرنا کو اپنی توہین سمجھا جائے۔میں نے کبھی ڈان بلاگ موڈریٹر کی خوشامد نہیں کی کہ یار میرا تبصرہ شائع کر دو، یا دیر سے شائع نہ کیا کرو۔ تبصرہ بھیجنا میرا کام اور شائع کرنا یا نہ کرنا موڈریٹر کا کام۔ نہیں شائع کرنا تو نہ سہی، آئی ڈونٹ کئیر۔
حسن امتیاز Feb 16, 2016 09:13pm
اکثر سمجھ دار نوجوان پی ایچ ڈی بیرون ملک سے کرتے ہیں۔ جن طلبہ کے ممکن ہو ان کو ایم فل پاکستان سے اور پی ایچ ڈی بیرون ملک سے کرنی چاہے ۔ یہ بھی ایک شارٹ کٹ ہے ۔
SMH Feb 16, 2016 09:46pm
شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی الٹا لٹکو گے تو سیدھا دکھائی دے گا،،،
حافظ Feb 17, 2016 07:17am
یہ مسائل صرف پاکستان سے متعلق نہیں، ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ امریکہ میں دیسی ٹیچنگ اسسٹنٹس اور ریسرچ اسسٹنٹس کی جو درگت بنتی ہے ہو وہی جانتے ہیں۔ ہاں ذاتی کام نکلوانا اور جنسی فیورز کے لئے سخت قوانین ضروری ہیں۔ ویسے اگر آپ پانچ سال تک پی ایچ ڈی نہیں کر پاتے تو کچھ اور کام ہی کر لینا چاہیے۔
kmkhawar Feb 17, 2016 01:19pm
I am Prof. Dr. I have many PhD students. I do not agree with this.............. PhD thesis is approved by a panel with foreign evaluation in Pakistan............