قربانی کا بکرا؟

احمد شہزاد پاکستان کے لیے دو ورلڈ کپس میں اوپنر رہے اور 2009 اور 2014 میں ہونے والے ورلڈ ٹی 20 اسکواڈز کا حصہ بھی رہے۔ — اے ایف پی
احمد شہزاد پاکستان کے لیے دو ورلڈ کپس میں اوپنر رہے اور 2009 اور 2014 میں ہونے والے ورلڈ ٹی 20 اسکواڈز کا حصہ بھی رہے۔ — اے ایف پی

ورلڈ ٹی 20 اسکواڈ سے ڈراپ ہونے اور اب پاکستانی ٹیم کے رکن وہاب ریاض سے تلخ کلامی کے بعد احمد شہزاد کے لیے چیزیں بدتر ہوتی جا رہی ہیں۔

شہزاد کے گذشتہ دو ماہ آسان نہیں رہے۔ وہ اپنی خراب ساکھ کو بہتر بنا کر خود کو حقیقی طور پاکستان کے بہترین بیٹسمین میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ان کی ڈوبتی فارم کے نتیجے میں وہ حتمی طور پر ٹی 20 اسکواڈ سے ڈراپ کر دیے گئے۔

یہاں تک کہ کپتان شاہد آفریدی سے دوستی بھی 'پاکستانی کوہلی' کو سہارا نہیں دے سکی۔ یہ نام طنزیہ طور پر ان پرستاروں نے رکھا ہے جن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔

ان کی گذشتہ 5 ٹی 20 میچوں میں کارکردگی انتہائی افسوس ناک رہی ہے اور ان کے بنائے گئے رنز کچھ اس طرح ہیں: 12، 13، 8، 9، 16۔

مگر کیا واقعی شہزاد اتنے بڑے ٹورنامنٹ سے پہلے ٹیم سے ڈراپ کیے جانے کے مستحق ہیں؟

سب سے پہلے شہزاد کے کریئر کو تھوڑا گہرائی سے جاننے کے لیے وقت میں پیچھے چلتے ہیں۔

اپنی 15ویں سالگرہ کے دو مہینے بعد لاہور کے اس نوجوان بیٹسمین نے ڈومیسٹک کرکٹ میں قدم رکھا۔

قائد اعظم ٹرافی (گولڈن لیگ) 2007 میں کراچی ہاربر کے خلاف لاہور شالیمار کے لیے کھیلتے ہوئے انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا۔ اپنی پہلی اننگز میں تو وہ دو ہندسوں میں داخل نہیں ہو سکے لیکن دوسری اننگز میں انہوں نے دھیمے انداز میں 42 رنز بنا کر سب کو متاثر کیا۔

یہ بلے بازی میں ان کا ہنر ہی تھا جس نے ان کی انڈر 19 ٹیم میں سلیکشن میں مدد دی اور صرف چند مہینوں بعد ہی شہزاد نے انگلینڈ کے خلاف اپنے پہلے یوتھ ٹیسٹ میچ میں 367 رنز کے تعاقب میں 167 رنز اسکور کیے۔

جلد ہی وہ پاکستان انڈر 19 کے باقاعدہ اوپنر بن گئے اور دو یوتھ عالمی کپ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

دو سال بعد 17 سالہ شہزاد نے اپنا پہلا سینئر میچ آسٹریلیا کے خلاف کھیلا۔ شروع میں کچھ مشکلات کے بعد وہ پاکستان ٹیم کے مستقل رکن بن گئے، اور 3 فروری 2011 میں سیڈن پارک میں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ بین الاقوامی میچ میں پہلی سنچری اسکور کی۔

تب سے لے کر وہ پاکستان کے لیے دو ورلڈ کپس میں اوپنر رہے اور 2009 اور 2014 میں ہونے والے ورلڈ ٹی 20 اسکواڈز کا حصہ بھی رہے۔

2009 کے ایڈیشن میں زیادہ مواقع ملنے میں ناکامی اور اگلے دو ایڈیشن میں بھی نظرانداز کیے جانے کے بعد شہزاد نے 2014 کے عالمی ٹی 20 میں اپنی کارکردگی کا اپنا نشان چھوڑا۔ 30 مارچ 2014 کو بنگلادیش کے خلاف شیرِ بنگلہ اسٹیڈیم میں وہ واحد پاکستانی تھے جنہوں نے اس مختصر ترین کرکٹ فارمیٹ میں سنچری اسکور کی۔

تب سے وہ ٹی 20 میچوں میں پاکستان کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی ہیں۔ مارچ 2014 سے لے کر ویسٹ پیک اسٹیڈیم نیوزی لینڈ میں کھیلے گئے پاکستان کے آخری ٹی 20 تک، 24 سالہ کھلاڑی نے 18 اننگز میں 117 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 413 رنز بنائے ہیں۔ عمر اکمل رنز کی اسی تعداد مگر ایک زیادہ اننگز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔

اس دوران پاکستانی بلے بازوں نے صرف 8 نصف سنچریاں اسکور کی ہیں۔ ان میں سے ایک نصف سنچری شہزاد نے گذشتہ سال پاکستان میں ہونے والے زمبابوے کے تاریخی دورے کے دوران اسکور کی۔ مختار احمد اور عمر اکمل نے دو دو، اور شعیب ملک، محمد حفیظ اور سرفراز احمد نے ایک ایک نصف سنچری اسکور کیں۔

ایشیا میں مارچ 2014 سے:

'ایشیا' میں شہزاد کی ٹی 20 میں اوسط 30 تک پہنچ گئی اور صرف سرفراز احمد کی اوسط سب سے زیادہ، یعنی 33 تھی۔

مجموعی طور پر

اس حقیقت کے باوجود کہ شہزاد نے اپنا کریئر 2009 میں شروع کیا، یعنی پاکستان کے ٹی 20 فارمیٹ میں کھیل کے آغاز کے تین سال بعد، مگر آج وہ پاکستان کے پانچویں سب سے زیادہ رنز اسکور کرنے والے کھلاڑی ہیں۔

پانچ بہترین اسٹرائیک ریٹ والے بلے بازوں میں تیسرا نمبر ہے۔ محمد حفیظ چارٹ میں 71 اننگز میں 1514 کے ساتھ سب سے اوپر ہیں لیکن ان کی اوسط شہزاد سے کم ہے۔

آخری ورلڈ ٹی20 میں:

پاکستان 2014 میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں کوارٹر فائنل میں ناک آؤٹ ہوگیا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ پاکستان عالمی ٹی20 میں سیمی فائنل تک نہیں پہنچ پایا۔ 2014 کے ایڈیشن سے پہلے ٹیم پہلے دو ایڈیشنز میں فائنل تک پہنچی تھی اور 2010 اور 2012 میں سیمی فائنل تک پہنچی تھی۔

ایک بار پھر احمد شہزاد 46 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 138 رنز بنا کر پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی تھے۔ انہوں نے ہر بال پر 1.62 رنز بنائے اور ان کی اوسط اور اسٹرائیک ریٹ پاکستان کے باقی بلے بازوں سے بہتر تھی۔

پی ایس ایل میں:

ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی 20 میں نظرانداز کیے جانے کے بعد شہزاد نے اپنا رد عمل 31 گیندوں پر ایک چھکے اور 4 چوکوں کی مدد سے 41 رنز بنا کر دیا۔ لُوک رائیٹ اور کیون پیٹرسن کے جلدی آؤٹ ہونے کے بعد انہوں نے کپتان سرفراز احمد کے ساتھ مل کر گلیڈی ایٹرز کی ڈوبتی کشتی کو پار لگایا۔

پاکستانی اسکواڈ کے اعلان سے چار دن قبل شہزاد نے کراچی کنگز کے خلاف 71 رنز بنائے جس وجہ سے گلیڈی ایٹرز 147 کے ہدف کو دبئی کی سخت وکٹ پر حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

پی ایس ایل کے پانچ میچوں میں اب تک گلیڈی ایٹرز کے اس اوپنر نے 30 کی اوسط اور 142.6 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ بیٹنگ کی ہے۔

شہزاد کو ٹیم میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ سمجھ سے باہر ہے۔

گذشتہ سال نومبر سے ٹیم کی کارکردگی زوال کا شکار رہی ہے۔ ٹی 20 فارمیٹ میں دوسرے نمبر پر رہنے والی پاکستانی ٹیم، انگلینڈ کے ہاتھوں 0-3 سے وائیٹ واش اور نیوزی لینڈ کے خلاف 1-2 سے سریز ہارنے کے بعد ساتویں نمبر پر آچکی ہے۔

شہزاد کو ڈراپ کیا جانا ایسا ہے جیسے انہیں ٹیم کی خراب کارکردگی پر قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ ٹی 20 اسکواڈ کا کبھی حصہ نہ رہنے والے کھلاڑی خرم منظور کو ان کی جگہ شامل کر کے ٹیم انتظامیہ اور سلیکشن کمیٹی نے ٹیم کا توازن بنیاد تک بگاڑ دیا ہے۔ عنقریب ہونے والا ورلڈ ٹی 20 بھی شاید پچھلے سال ہونے والے ورلڈ کپ جتنا ہی برا ثابت ہو، جب پاکستان اپنی اوپننگ جوڑی کو حتمی شکل نہیں دے سکا تھا، یہاں تک کہ آسٹریلیا کے ہاتھوں کوارٹر فائنل مرحلے میں شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا تھا۔

لیکن اب بھی شہزاد کے پاس ایک اور موقع ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ہفتے کے دن کہا ہے کہ 8 مارچ تک 'بغیر کسی باضابطہ منظوری' کے اسکواڈ میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔

ہمارے پاس صحیح کھلاڑی کو اسکواڈ میں شامل کرنے کا ایک اور موقع ہے، مگر کیا ہم ایسا کریں گے؟

انگلش میں پڑھیں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

طلحہ اسلام Feb 17, 2016 06:28pm
اگر کسی کی کارکردگی بہتر ہو تو اس کو ضرور آنا چاہئے اور ہر ایونٹ میں شرکت بھی کرنی چاہئے مگر جب کارکردگی صفر ہوجائے تو پھر کسی صورت ایونٹ میں شمولیت ممکن نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی کسی قسم کی سفارش کو مانا نہیں جاناچاہئے۔ جب میرٹ پر فیصلے کئے جائیں گے تو پھر احتساب کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا اور سب کو انصاف ملے گا۔ کئی نوجوان جو احمد شہزاد سے بھی زیادہ اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں انہیں موقع نہیں دیا جارہا ہے اس طرح سے ان کو بھی موقع ملے گا کسی صورت نہیں کھلانا چاہئے
محمد عمران Feb 17, 2016 06:57pm
احمد شہزاد ٹیم میں اپنی کارکردگی کی وجہ سے نہیں تھے ۔ یہاں تک زبانی کلامی ٹیلینٹڈ ہونے کی بات ہے تو وہ پھر سب سے آگے ہیں۔ زمبابوے جیسی کمزور ٹیموں کے خلاف سکور کر کے کوئی رستم زمان نہیں بن جاتا ۔ صف اول کی ٹیموں کے خلاف ان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔
Inder Kishan Feb 17, 2016 11:29pm
بدقسمتی سے ہمارے کھلاڑی پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور پبلک پرسنلٹی ہونے کے باوجود ان میں یہ بات قبول کرنے کا سینس ہی نہیں بن پا رہا چاہے وہ کتنے ہی میچز کیوں نہ کھیل لیں۔ وہی پرانے لالچی ٹرینڈرز، صرف کنٹریکٹ میں زیادہ پیسے لینے کی خاطر کیٹگریز پر جھگڑے، بائیکاٹ، ان سے کوئی پوچھے تو کہ کارکردگی کیا ہے۔ کپتان اظہر علی سمیت کوئی ایک کھلاڑی ایسا بتادیں جس نے ورلڈ کپ کے بعد سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مارک مائی ورڈز، ٹیم کا ایٹیٹیوڈ یہی رہا تو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل تک بھی نہیں پہنچیں گے۔ کل کا لڑکا ویرات کوہلی پتہ نہیں کہاں سے کہاں پہنچ گیا، سنچریوں کے ڈھیر لگا دیئے اس نے؛ لیکن یہاں آفریدی کو پتہ نہیں کیوں سر چڑھایا ہوا ہے لوگوں نے، اتنے عرصے سے کھیلنے کے باوجود ماضی قریب میں ایک سنچری بھی اسکور کی ہے اس نے؟ کارکردگی زیرو ہو تو کھلاڑیوں کو موقع ہی نہیں دینا چاہئے۔ صرف کراچی پنجاب اور پشاور سے کھلاڑی لینے کی بجائے دوسرے شہروں میں بھی ٹیلنٹ ہنٹ شوز منعقد کرنا چاہئے۔ کیا بلوچستان یا حیدرآباد سکھر میرپور خاص میں ایک بھی کھلاڑی اچھی کرکٹ کھیلنے والا نہیں ہے؟ یا ملتا ہے نہیں ہے انہیں؟
حافظ Feb 18, 2016 03:34am
گذشتہ کارکردگی اور بڑے ایونٹ کا حصہ ہونا کسی کو ٹیم کا مستقل رکن نہیں بنا دیتا۔ کرنٹ کارکردگی دیکھنی ہوتی ہے اور مجھے آج تک احمد شہزاد کی کو متاثر کن کارکردگی یاد نہیں۔