عبید اللہ بیگ -- 1936-2012 -- فوٹو -- مختار آزاد
عبید اللہ بیگ -- 1936-2012 -- فوٹو -- مختار آزاد -- مزید یادگار تصاویر کے لئے کلک کریں

سیانے کہہ گئے ہیں کہ جو ہوتا ہے، بھلے کے لیے ہی ہوتا ہے تو جو بھلا ہوا، صدیوں پہلے کی بات ہے۔

بات شروع ہوئی وسط ایشیائی سرزمین کے اُس ٹکڑے سے، جہاں بیسویں صدی کی آخری دہائی سے ذرا پہلے مرحوم سوویت یونین سے آزاد ہونے والی ریاست ’ترکمانستان‘ واقع ہے۔ تاریخ کا ترکمانستان جغرافیے میں آج کی نسبت کہیں زیادہ وسیع تھا۔

وسیع و عریض ترکمانستان کی ایک وادی ہے فرغانہ جہاں جنگجو، اُجڈ، بے سہارا مگر رگوں میں تیموری حکمراں خونِ لیے ظہیرالدین بابر جان بچانے اور تخت حاصل کرنے کے لیے اِدھر اُدھر مارا مارا پھر رہا تھا۔

اُس ترکمانستان میں بابر کے عہدِ بے سہارگی میں دو قبیلے رہتے تھے۔ ایک تھا 'قرہ قیو آنلو' یعنی 'کالی بھیڑوں والے' اور دوسرا 'آق قیو آنلو' یعنی 'سفید بھیڑوں والے۔' ایک وقت ایسا آیا کہ دونوں قبیلوں کے درمیان غضب کا تنازع چھڑ گیا۔ نتیجے میں کالی بھیڑوں والے وہاں سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ خدا قرہ قیو آنلو سے بابر کا ملن کرانے والا تھا۔

فرغانہ کا ترک نوجوان بابر افغانستان سے ہوتا ہوا کروکشیتر کی سرزمین پر سپاہ لے کر پہنچا تو اُس کے ساتھ کالی بھیڑوں والے قبیلے کے کچھ لوگ بھی تھے۔ اس کے بعد، بابر سے لے کر شاہ عالم ثانی کے دور تک، اس قبیلے کے لوگ آذر بائیجان، ایران اور افغانستان سے ہوتے ہواتے ہندوستان پہنچتے اور بستے رہے۔

قرہ قیو آنلو کے مرزا مہدی علی ہندوستان کے شہر مُراد آباد میں جنم لینے والے بیگ خاندان کی آٹھویں نسل میں تھے۔ نویں نسل میں اُن کی واحد اولادِ نرینہ محمود علی بیگ تھے۔ ترکمانستان کے بعد مُراد آباد ہی ان کا آبائی وطن ٹھہرا۔

مُراد آباد شہر، مہدی علی بیگ کے جدِاعلیٰ یوسف خاں بیگ کا آباد کردہ ہے۔ ان کا خطاب رستم خان بہادر فیروز جنگ تھا۔ شہنشاۂ ہِند اورنگزیب عالمگیر نے اس خاندان کو عسکری خدمات میں جاگیریں عطا کی تھیں۔

مرزا مہدی علی بیگ کے بچپن میں ہی ترکوں اور شاہِ ہِند کا بانکپن لٹ چکا تھا۔ اس لیے جب ان کے اکلوتے بیٹے محمود علی بیگ نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو جاگیر کی آمدنی ناکافی پا کر کاروبار کی سوچی۔ تب تک رستم خاں کا مُراد آباد تانبے پیتل کے منقش برتنوں کے باعث ہندوستان بھر میں مشہور ہوچکا تھا۔

سو انہوں نے مُراد آبادی برتنوں کا کاروبار کرنا چاہا مگر کہاں شمشیرِ بے نیام سونت کر، گھوڑوں کی بے زین پشت پر سفر کرنے والے تُرک اور کہاں کاروبار۔۔۔ راس آنا تھا نہ آیا، البتہ مہدی علی بیگ کے اکلوتے فرزند کی اولاد خوب پھولی پھلی۔

محمود علی بیگ کو خدا نے آٹھ اولادیں عطا کیں، جن میں پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے تھے۔ ان میں سے ایک فرزند بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور دو  بہنوں سے بڑا تھا۔

محمود علی بیگ کے یہ فرزند یکم اکتوبر سن اُنیّس سو چھتیس کو مُراد آباد میں پیدا ہوئے۔ باپ نے بیٹے کا نام حبیب اﷲ بیگ رکھا مگر بہن بھائیوں اور گھر والوں نے اسے عبید پکارا۔

بچہ ذرا بڑا ہوا تو محمود علی بیگ اسے ابتدائی تعلیم کے لیے مُراد آباد کے اس مدرسے میں لے گئے جو کبھی اُن کی حویلی تھی مگر ہند کے جیّد عالم مولانا محمد قاسم نانوتوی سے عقیدت و اُنسیت کی بنا پر انہوں نے مدرسہ قائم کرنے کے لئے حویلی عطیہ کردی تھی۔

حبیب کہیں یا عبید، اُس بچے نے دادا کی حویلی سے علم کے اُس چراغ کی روشنی حاصل کرنا شروع کی جو پاکستان کے علمی افق پر دانش کا سورج بن کر چمکا اور عبیداﷲ بیگ کہلایا۔ وہی عبید اﷲ بیگ جن کے نام کے ساتھ پاکستان ٹیلی وژن کا مشہورِ زمانہ علمی پروگرام ’کسوٹی‘ ایسا جُڑا کہ اس ہمہ جہت شخصیت کے ہر پہلو پر حاوی ہوگیا۔

اگر ظہیر الدین بابر فرغانہ سے رسوا ہو کر نہ نکلتا، کالی اور سفید بھیڑوں والے باہم خون کے پیاسے نہ ہوتے تو پاکستان ایک صاحبِ علم سے، پی ٹی وی اپنے گوہرِ نایاب میزبان سے، خود پاکستانی ٹی وی ناظرین کسوٹی اور سیلانی جیسے سدا بہارپروگراموں سے اورمیں ایک نہایت قریبی دوست سے محروم رہ جاتا۔

واقعی... اُس روز سیانے سچ ہی کہہ گئے تھے کہ جو ہوتا ہے بھلے کے لیے ہوتا ہے۔

عبید اﷲ بیگ کی زندگی علم، فلم اور قلم کے تین خانوں میں ایسی بَٹی کہ جس دروازے سے داخل ہوں، سامنے کتاب آجاتی تھی۔ خود ان کے بقول؛ 'بچپن میں کتاب کو ہاتھوں میں لیا تو اس نے پھر ایسا ہاتھ تھاما کہ زندگی کتاب سے ہی عبارت رہی۔'

عبید اللہ بیگ نے کراچی میں صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا، نیوی اور برّی فوج میں بطور سویلین خدمات سرانجام دیں، ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے، روزنامہ حریّت میں رات بھر جاگ جاگ کر خبریں بنائیں، ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں کچھ وقت گذارا، پی ٹی وی میں شمولیت سے قبل اس کے ایک ذیلی ادارے میں ملازمت کی، جس کا کام غیر منقسم پاکستان میں بصری خبروں (وڈیو نیوز) کا اہتمام و انتظام تھا۔

پی ٹی وی سے منسلک ہوئے تو کم و بیش ڈھائی دہائیوں کی وابستگی کے دوران سوا تین سو سے زائد دستاویزی فلمیں بنائیں۔

سن اُنیّس سو چوہتّرمیں عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس کی براۂ راست نشریات میں بطور چیف پی ٹی وی اینکر پرسن شامل ہوئے۔ ان کی تیار کردہ کئی دستاویزی فلموں پر عالمی اعزازت دیے گئے۔ پی ٹی وی سے انہوں نے 'ٹی وی نامہ' رسالے کا بھی کا اجرا کیا۔

اِنگلستان، امریکا، جرمنی، ترکی اور اپنے وطنِ مالوف ترکمانستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں کی سیاحت کی۔ ترکمانستان کے اُس وقت کے صدر سپر مراد نیازوف کی جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بیگ صاحب کو اپنی لکھی کتاب پیش کی۔ جس پے صدرِ مملکت نے اپنے ہاتھ سے لکھا: 'میرے ہم وطن عیبداﷲ بیگ کے لیے۔'

بیگ صاحب اس عبارت کو اپنی علامتی ترکمانی شہریت کا پروانہ قرار دیتے اور بہت خوش ہوتے تھے۔ ترکمان ہونے پر فخر کرنے والے بیگ صاحب دل کی گہرائیوں سے صرف پاکستانی تھے۔

پی ٹی وی کی ملازمت سے فراغت کے بعد، ماحولیات کے حوالے سے پاکستان میں سرگرم بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این سے بطور ماہرِ ابلاغ وابستگی اختیار کی اور سہ ماہی رسالے ’جریدہ‘ کا اجرا کیا۔

راقم کو بھی بیگ صاحب کے بعد اس پرچے کی ادارت کا شرف ملا۔ اسی وابستگی کے دوران انہوں ملک کے ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے کئی دستاویزی فلمیں تیار کیں ۔

’اور انسان زندہ ہے‘ ان کا پہلا اور ضخیم ناول ہے جو سن ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ ایک ناول ’راجپوت‘ ہے جو سن دو ہزار دس میں نیشنل بُک فاؤنڈیشن، اسلام آباد نے شائع کیا۔ تیسرا ناول ’کاوا‘ لکھنے کا ارادہ تھا مگر زندگی نے وفا نہ کی۔

عبیداﷲ بیگ کا کہنا تھا 'یہ تینوں ناول ایک ہی سلسلے کی تین کڑیاں ہیں جن کا مرکزی خیال تقسیم کے بعد پاک و ہند کے حالات اوراُن کے محرکات ہیں۔'

موئن جو دڑو کے پس منظر میں ایک ناول ’سانگی‘ لکھ رہے تھے مگر وہ ادھورا تھا کہ مسودہ غائب ہوگیا۔ زندگی کے آخری چند ہفتوں تک وہ بڑے تاسف سے اُس کا تذکرہ کرتے رہے۔

سن ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں بیگ صاحب نے کراچی سے شائع ہونے والے ماہنامے 'الشجاع' سے کہانی لکھنے کی ابتدا کی۔ اُس وقت رسالے کے ایڈیٹر شیخ غیاث الدین تھے۔ الشجاع میں ہی ان کا پہلا ناول قسط وار شائع ہوا۔ بعد کے برسوں میں شیخ غیاث بیگ صاحب کے نہایت قریبی رفیق اور شطرنج کے حریف رہے۔

اُردو زبان پر قدرت اپنی جگہ لیکن فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر بھی مضبوط دسترس رکھتے تھے۔ سن دوہزار آٹھ میں حکومتِ پاکستان نے گرانقدر علمی خدمات کے پیشِ نظر انہیں 'تمغہ حسنِ کارکردگی' سے نوازا۔

بیگ صاحب کی شخصیت کو بالعموم ’کسوٹی‘ کی قید میں رکھ کر جانا جاتا ہے جو ٹھیک نہیں، ان کی ذ ات ایک ایسا ہیرا تھی کہ جس سے مختلف زاویوں میں لاتعداد کرنیں پھوٹتی تھی اور ہر کرن اس قابل کہ بیاں لکھنے بیٹھو تو دفتر کے دفتر کم پڑجائیں۔

صحافی، مدیر، ایڈورٹائزر،  براڈ کاسٹر، دستاویزی فلم ساز، ٹی وی رپورٹر، شکاری، سیاح، ناول نگار، ڈراما نگار، اسکرپٹ و فیچر رائٹر، مورخ، ماہرِ ماحولیاتی ابلاغِ عامّہ۔۔۔ کس کس جہت کا بیاں کیجیے۔

زندگی کے آخری ایام میں بڑے افسوس سے کہہ رہے تھے ؛

'مختار میاں ۔۔۔ مہینوں ہوگئے، طبیعت کے باعث نہ کچھ لکھا نہ پڑھا، عجب سی بے کلی ہے۔' یہ بے کلی بائیس جون ، سن دو ہزار بارہ کی صبح سورج طلوع ہونے پر ختم ہوئی۔

ساری عمر صحت ٹھیک رہی مگر آخری  چند سالوں میں دل کا عارضہ لاحق ہوا۔ آخری شب سے چند ماہ پہلے پیٹ کا کینسر اُس وقت تشخیص ہوا جب مرض لاعلاج ہوا اور صرف تین چار میں ہی کینسر نے جنگ جیت لی۔

اُس رات نیند ہی نہیں آرہی تھی۔ دل بہت پریشان تھا۔ سورج طلوع ہوتے وقت آنکھ لگی ہی تھی کہ تکیے کے برابر دھرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ ہڑبڑا کر اٹھا۔ عالمِ غنودگی میں ہی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نمبر دیکھنے کی کوشش کی۔ اسکرین پر لکھا تھا ’مجدّدی۔‘ دل دھک سے رہ گیا۔ جسم سے جیسے جان نکل گئی۔

'ہیلو۔۔۔' میں نے انجانے خوف سے لرزتے ہوئے غنودگی میں کہا۔ 'بھائی حبیب کا انتقال ہوگیا۔' بیگ صاحب کے معتمدِ خاص نے رندھی آواز میں کہا۔ 'ہم سب کو وہیں لوٹ کر جانا ہے۔' میں نے ٹوٹے دل سے کہا تھا۔

جس اندیشے نے ہفتوں سے گھیرا تھا، جس خوف نے ذہن و دل کی طنابوں کو کس رکھا تھا، جس سخت گھڑی کا امکان تھا اور دل سب کچھ جانتے ہوئے بھی اُس کے ٹل جانے کی دعا مانگتا تھا، وہ گھڑی سر پر آچکی تھی۔ قیامت گذر چکی تھی۔ اب رسم دین وِ دنیا باقی تھیں۔

قلم کا طغرل ترکمان، خاندان والوں اور لڑکپن کے ساتھیوں کا حبیب، بے تکلف دوستوں کا او۔ بی، پاکستان ٹیلی وژن کے سن ستّر کی دہائی کا سیلانی، بھابی سلمیٰ کے بادشاہ سلامت، درباری دوستوں کا آخری مغل، ساتھ کام کرنے والوں کا بیگ صاحب، عمر میں چھوٹے اور بے شمار پرستاروں کا عبید اﷲ بیگ اورمجھے اپنا دوست کہنے سمجھنے والا، دکھ سکھ باٹنے والا، دکھوں میں ہمت بندھانے اور خوشی میں خوش ہونے والا، کئی رازوں کا ہمراز۔۔۔

سیلانی دوست عبید اﷲ بیگ گئی تہذیب کا نشان ۔۔۔ فخر سے خود کو ’آخری مغل‘ کہتا۔ دوستوں کا آخری مغل تاج دار کراچی کے گزری قبرستان کی پہاڑی چوٹی پر سب سے اونچی جگہ آرام فرما ہے، آخری مغل جو تھا۔

آج آخری مغل کو 'سطنت' سے گذرے پہلا سال پورا ہوا۔


 mukhtar-80   مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

Dr Mohammed Sohail Memon Jun 22, 2013 02:23pm
Assalam.o.Alaikum I did not realize, its been a year since, I heard his death news in Sydney on dunya tv. Time passed so fast, and you truly said that we all have to go one day. I have known Ubaid sab as Kasoti mezban, was difficult to understand program during my childhood but still watched it, due to interesting way of its hosts, Ubaidullah Baig, Mr Quraish pur and Mr Arif. Ab woh log phir na ayenge...........................! I did not know about his family history, that he was descendant of Mughals/Taimoori blood/Turkamani background. May Allah rest his soul in peace and make his grave a garden of heaven (Ameen) Mohammed Sohail Memon
Tariq Askari Jun 22, 2013 02:34pm
بہت خوب ، مرحوم کے لیے دعاگو ۔
Dr Tahir Kharal Jun 22, 2013 04:23pm
gud
Khalid Jul 23, 2013 06:17pm
I just read this! our media is so messed up! i mean, we knew when Pran died, when other non Pak person passed away. Not so much about him, or i missed it.