خودکشی باعثِ بدنامی کیوں؟

27 فروری 2016
غیر سرکاری اور آزادانہ اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 6 ہزار سے 8 ہزار لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ — Creative Commons
غیر سرکاری اور آزادانہ اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 6 ہزار سے 8 ہزار لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ — Creative Commons

چند سال قبل میں نے ایک نامور یونیورسٹی میں اسکالرشپ پر زیر تعلیم ایک نوجوان طالب علم کی خودکشی کے بارے میں سنا۔ کیونکہ میں پاکستان سے دور تھی، اس لیے سنی سنائی باتوں سے زیادہ جان نہیں پائی۔ بظاہر وہ امتحان میں فیل ہوا تھا، اور نتیجتاً اسے اسکالرشپ سے محروم ہونا پڑا۔ اسے سمجھ نہ آیا کہ کس طرح اپنے گھروالوں کو یہ بات بتائے۔

اس افسوسناک سانحے سے رنجیدہ ہو کر میں نے یہ بات ایک پاکستانی دوست کو بتائی۔ میں حیران تھی کہ اس کا ردِعمل ہمدردی کے بجائے غصے پر مبنی تھا:

"والدین کا نہیں سوچا۔ دوست نہیں ہوں گے، اور کوئی حل نہیں ڈھونڈنا آیا۔"

اوپر کے بیان میں موجود جہالت نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور بے چین کردیا۔ شاید یہی وہ دن تھا جب خودکشی کے موضوع میں میری دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے حقائق اکٹھے کرنے کا کام شروع کر دیا۔

عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق ہر سال خودکشی کی وجہ سے تقریباً دس لاکھ لوگوں کی موت ہوتی ہے، اور عالمی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے یہ تعداد ایک لاکھ میں سے 16 بنتی ہے۔ اوسطاً، دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی سے ہلاک ہوتا ہے، اور یہ تعداد دنیا میں ہونے والی اموات کا 1.8 فیصد ہے۔ یہ تعداد پچھلے 45 سالوں میں تقریباً 60 فیصد تک بڑھی ہے۔

پاکستان خودکشی کے اعداد و شمار کا عالمی ادارہ صحت سے تبادلہ نہیں کرتا۔ یہاں پر خودکشی کے واقعات کو بدنامی کے ڈر سے رپورٹ بھی نہیں کیا جاتا، اس لیے درست اعداد و شمار دستیاب بھی نہیں۔

صحت عامہ کے اس اہم مسئلے پر زیادہ گفتگو کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خودکشی کرنے والوں سے رسوائی کے داغ کو ختم کرنے کے لیے ایک ٹھوس حل ہونا چاہیے۔

پڑھیے: خودکشی کا رجحان: علامات پہچانیے

آغا خان یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر موسیٰ خان کی مدد سے اب اس اہم موضوع پر ریسرچ اور گفتگو ہو رہی ہے۔ ذیل میں پاکستان میں خودکشی کے حوالے سے جو معلومات دی گئی ہیں، وہ ان کی شائع شدہ تحقیق اور مختلف فورمز جیسے دی سیکنڈ فلور (T2F) میں ہونے والی بات چیت سے اخذ کی گئی ہیں۔

اعداد و شمار

غیر سرکاری اور آزادانہ اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 6 ہزار سے 8 ہزار لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ خودکشی کرنے والا ہر شخص 10 سے 20 مرتبہ خودکشی کرنے کی کوشش کر چکا ہوتا ہے۔

خودکشی کے سب سے زیادہ کیسز سندھ میں، اس کے بعد پنجاب میں، اور سب سے کم واقعات خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے رپورٹ ہوئے۔ حقیقت میں ان دو صوبوں میں خودکشی کے واقعات کی کم تعداد شاید غیر مؤثر رپورٹنگ سسٹم کی وجہ سے ہو، نا کہ حقیقتاً خودکشی کرنے والوں کی کم تعداد کی وجہ سے۔

نفسیاتی پوسٹ مارٹم (جو کہ خودکشی پر تحقیق کا ایک تصدیق یافتہ طریقہ ہے) کے مطابق کراچی میں ہونے والی سو خودکشیوں میں واحد بنیادی اور اہم عنصر ڈپریشن تھا۔ ڈپریشن اور خودکشی سے جڑی دوسری وجوہات میں گھریلو تنازعے، مالی مسائل، بے روزگاری اور دیگر شامل ہیں۔

پاکستان میں خودکشی کرنے کے طریقوں میں (تعداد کے لحاظ سے) سب سے عام پھندا لگانا، زہر پی لینا (کیڑے اور جراثیم کش ادویات)، اسلحہ، پانی میں ڈوب کر اور خود کو جلا کر مارنا شامل ہے۔

خودکشی کرنے والوں میں اکثریت کی عمر 30 سال سے کم تھی۔ عورتوں کے مقابلے میں دوگنا مرد خودکشی کرتے ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں اکثریت شادی شدہ مردوں اور عورتوں کی تھی۔

مزید پڑھیے: دو بچوں کی 'خود کشی' کا ذمہ دار کون؟

یہ اعداد و شمار مغرب کے برعکس ہیں، جہاں شادی تحفظ کی وجہ ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان میں شریکِ حیات اور سسرال والوں سے باہمی تعلقات، اور دیگر سماجی اور ثقافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی جیسے مرد وارث کی پیدائش، بے پناہ دباؤ کی وجہ ثابت ہوتی ہیں۔

خودکشی کا موضوع شجرِ ممنوعہ کیوں ہے؟

اس بات کو سمجھنا میرے لیے مشکل تھا کہ آخر کیوں پڑھے لکھے اچھے خاصے لوگ، جنہوں نے دنیا دیکھی ہوئی ہوتی ہے، بے پناہ تجربات کے باوجود خودکشی کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ اس کا جواب ملک کی سماجی ثقافتی، مذہبی اور قانونی ساخت میں موجود ہے۔

پاکستان کی 97 فیصد آبادی مسلمان ہے، اور بھلے ہی ہمیں برطانوی نظامِ تعزیرات وراثت میں ملا، جو کہ تقریباً ہندوستان جیسا ہی ہے، مگر اس میں وقت کے ساتھ ترامیم کی گئی ہیں جس سے یہ مسلم اور انگریز قانون کا ایک ملغوبہ ہے۔

ان تعزیرات کے تحت خودکشی اور اقدامِ خودکشی جرائم ہیں (پی پی سی 309 ضابطہء فوجداری) جس کے نتیجے میں جیل ہوسکتی ہے یا/اور 10 ہزار روپے تک کا جرمانہ شامل ہوسکتا ہے۔ قانون کے تحت اقدام خودکشی کرنے والوں کے خلاف مقدمات ان کے متعلقہ علاقے کی پولیس کو رپورٹ کرنے ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں بھی یہی تعزیرات ہیں اور سیکشن 309 کو ختم کرنے کے لیے سرگرمی سے کام کیا جارہا ہے۔

پاکستان میں پولیس کے چکر لگانے اور ممکنہ ہراساں ہونے سے بچنے کے لیے اس قسم کے کیسز سامنے نہیں لائے جاتے، اور ان ہسپتالوں سے مدد طلب کی جاتی ہے جو اس کو فارینسک کیسز کے طور پر رپورٹ نہیں کرتے۔

عورت کی شادی کے لیے سماجی ساختوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے تمام ذہنی امراض کے شواہد، جن میں خودکشی کرنے کی کوشش اور خود سوزی جیسے عوامل کو چھپایا جاتا ہے۔ اگر کسی خاندان کے فرد نے خودکشی یا اقدام خودکشی کیا ہوتا ہے تو وہ معاشرے میں تنہا کر دیے جاتے ہیں۔

بدقسمتی کی بات ہے کہ رسوائی کا ڈر لوگوں کو اپنے یا اپنے پیاروں کے لیے مدد مانگنے سے باز رکھتا ہے۔

کیا چیز بدلنے کی ضرورت ہے؟

اوپر پیش کیے گئے حقائق حیران کن ہیں اور بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔

مجموعی سطح پر پالیسیوں اور رویوں کو تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ایسی تعزیرات خارج کرنے اور اسلحے اور زہر جیسی ضرر رساں چیزوں تک رسائی میں کمی لائے پر غور کرنا چاہیے۔

جانیے: میں نے ڈپریشن سے کیسے نمٹا؟

نفسیاتی ماہرین کی کمی کی وجہ سے بنیادی معالجوں کو یہ سیکھنا ہوگا کہ ذہنی بیماریوں کی کس طرح تشخیص اور علاج کیا جائے، اور پیچیدہ معاملات کو ماہرینِ نفسیات کے پاس منتقل کر دینا چاہیے۔ حقیقتاً ان تمام اقدامات کے لیے وقت اور بھرپور لگن کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ کس طرح مدد کرسکتے ہیں؟

جب لوگوں کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا تو وہ خود کو نقصان پہنچاتے ہیں یا خودکشی کرتے ہیں — یہ ایک طرح سے مدد کی پکار ہوتی ہے، شدید مایوسی کا عمل ہوتا ہے، ذہنی بیماریوں زندگی کی سرنگ میں اندھیرے بھر دیتی ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ سرنگ کے اختتام میں موجود روشنی کو نہ دیکھ نہیں پاتے۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بھلے ہی معاشرتی مسائل — جنہیں عام طور پر خودکشی کی وجہ قرار دیا جاتا ہے — پاکستان میں کثرت سے موجود ہیں، مگر بے روزگار لوگوں میں سے بہت ہی کم لوگوں کی تعداد خود سوزی یا خودکشی کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسا نہیں کرتی۔ تو ہم یہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ اقلیت میں موجود ان لوگوں کو شاید ذہنی صحت کے مسائل درپیش ہوں یا شاید ان میں حالات سے نمٹنے کی صلاحیت اور مسائل کو حل کرنے کا ہنر موجود نہ ہو۔

سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ خودکشیوں کو روکا جاسکتا ہے۔

مدد موجود ہے، جو پاکستان مین بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تمام بڑے شہروں میں ذہنی صحت کے ڈاکٹر موجود ہیں اور تقریباً ہر میڈیکل کالجز میں طب نفسیات کے شعبوں کے ساتھ تربیت یافتہ ڈاکٹرز موجود ہیں۔ کچھ خیراتی ادارے مفت یا مناسب قیمت پر ذہنی امراض کا علاج کرتے ہیں۔

تو اگر آپ ایسے کسی شخص کو جانتے ہیں جو کشمکش کا سامنا/جدوجہد کر رہے ہیں تو ان کے بارے میں رائے قائم نہ کریں یا ان کا مذاق نہ اڑائیں۔ اس کے بجائے ان کی مشکل کو سمجھنے کی کوشش کریں اور سہارا دیں۔ وہ ویسے ہی اپنے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں، انہیں اس چیز میں آپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔

خودکشی کی طرف مائل ہونا ایمان کی کمزوری نہیں ہے، بلکہ ایک ذہنی مسئلہ ہے۔ انہیں بولنے کے لیے حوصلہ دیں، انہیں مدد حاصل کرنے کا حوصلہ دیں اور اگر آپ کو خودکشی کرنے کا خیال آئے تو شرمندہ اور پریشان نہ ہوں۔ مدد ہمیشہ آپ کی منتظر ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری اس بلاگ کے لیے مشورہ اور معلومات فراہم کرنے کے لیے ڈاکٹر مراد موسیٰ خان کی شکرگزار ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Feb 27, 2016 09:35pm
ایک طرف خودکشی کو سماجی مسائل کی وجہ قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف اسے ذہنی امراض کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔کیا خودکشی کا خیال ایک ذہنی مرض ہے؟ اگر ذہنی مرض ہے تو اسے سماجی مسائل کی وجہ قرار دینے کا کیا جواز بنتا ہے؟ خودکشی مایوسی کی انتہا ہے اور مایوسی کا دورہ ہمیشہ قابل ذہین،ذمہ داری کا بھرپور احساس لیے ہوئے لوگوں میں پایا جاتا ہے کیونکہ خیالات، نالج، یار دوست،تعلیم، اثر و رسوخ جب کسی سماجی، معاشی، خانگی مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں ناکام ہو جائیں تو تحقیق و دریافت کا عمل ختم ہو جاتا ہے یعنی شکست ہو جاتی ہے اور اس شکست کو روکنے کے لیے اگر فرد اور تحقیق و دریافت کرے گا تو دماغی شریان کے پھٹنے کا چانس پیدا ہو جائے گا جو کہ خودکشی سے بھی خطرناک ہوتا ہے۔ گویا مایوسیوں کا حل جب نہ نکلے تو انسان ایسے ڈھے جاتا ہے جیسے سیلاب میں کچی دیواریں۔ خودکشی کو ذہنی مرض شمار کرنا انسان کو درپیش مسائل سے چشم پوشی ہے جو خودکشی کا سبب بنتے ہیں۔ ان پڑھ، ڈفر ٹائپ اور کھلنڈر قسم کے لوگوں میں مایوسی نہیں ہوتی کیونکہ وہ حال میں جیتے ہیں۔ اپنا دیوانہ مجھے بنایا ہوتا تو نے کیوں خرد مند بنایا، نہ بنایا ہوتا تو نے
حسن امتیاز Feb 27, 2016 11:04pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ : پتہ نہیں جناب خود کالم/بلاگ تحریر کیوں نہیں کرتے ، ہر تبصرے گہرائی سے بھرپور، ہر بات میں وزن