خود ریلیکس، عوام پر ٹیکس

12 اپريل 2016
پاناما — خوبصورت ساحلوں، ان چھوئے جنگلات، اور ہماری اشرافیہ کے بینک اکاؤنٹس والا ملک۔ — Creative Commons.
پاناما — خوبصورت ساحلوں، ان چھوئے جنگلات، اور ہماری اشرافیہ کے بینک اکاؤنٹس والا ملک۔ — Creative Commons.

وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے ایک سوال: جب آپ کے اپنے بیٹے اور بیٹی (اطلاعات کے مطابق) برٹش ورجن آئلینڈز میں ٹیکس بچانے کے لیے پیسہ منتقل کر رہے ہیں تو آپ کس طرح پاکستان کے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر ان کو اپنے حصے کا ٹیکس دینے کا کہہ سکتے ہیں؟

جیسے جیسے پاناما پیپرز کے انکشافات سے گرد چھٹ رہی ہے، ویسے ویسے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ شریف خاندان کے افراد کا استعمال کردہ طریقہ کوئی منفرد نہیں تھا۔ اس کے بجائے نہایت غیر اخلاقی اور قانونی لحاظ سے مشتبہ طریقے کے تصویر ابھر کر سامنے آ رہی ہے، جس کا استعمال پاکستان میں موجود سیاسی اور معاشی صفوں میں نمایاں نام رکھنے والے لوگ وسیع پیمانے پر منظم انداز میں کر رہے تھے۔

پڑھیے: پاناما لیکس نواز شریف کی سچائی پر مہر

سابق وزیرِ اعظم بینظیر بھٹو کے حسن علی جعفری (ان کے بھانجے) اور سینیٹر رحمان ملک کے ساتھ اس پیٹرولیم کمپنی کے واحد شیئر ہولڈرز ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے، جس کے بارے میں اقوام متحدہ نے پایا تھا کہ اس نے سابق عراقی آمر صدام حسین کو ٹھیکے حاصل کرنے کے بدلے میں رشوت دی تھی۔

اطلاعات ہیں کہ سینیٹر عثمان سیف اللہ اور ان کا گھرانہ برٹش ورجن آئیلنڈ اور سیشلز میں 34 کمپنیوں کا مالک ہے۔ دیگر پاکستانی حکام بھی ٹیکس سے مستثنیٰ ممالک میں آف شور کمپنیوں کے مالکان کی فہرست میں شامل ہیں، اور جہاں تک بات کاروباری شخصیات کی ہے، تو ان کی فہرست تو کافی طویل ہے۔

یہ تمام انکشافات بہت سارے قانونی سوال کھڑے کرتے ہیں۔

ٹیکس سے مستثنیٰ ممالک میں آف شور کمپنیاں ہونا کوئی جرم نہیں مگر پاکستان کی ممتاز سیاسی اور معاشی شخصیات ان ممالک میں بینک اکاؤنٹ اور کمپنیاں قائم کرنے کے کیوں اتنے خواہشمند ہوتے ہیں جہاں پر تھوڑا یا بالکل بھی ٹیکس نہیں دینا پڑتا، جہاں بینک کاری کے کڑے مخفی قانون ہوتے ہیں، اور جب ان سے منی لانڈرنگ یا ٹیکس چوری جیسے مسائل کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ پاکستانی یہاں تک کہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بھی اپنے بدنام زمانہ عدم تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں؟

مزید پڑھیے: تئیس لاکھ امیر ٹیکس چور

مثلاً اگر شریف خاندان کے افراد واقعی اپنی قانونی دولت سے لندن میں 6 فلیٹ خریدنا چاہتے تھے اور صاف نیت سے اپنے ٹیکس گوشواروں میں اپنی تمام ملکیت ظاہر کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے تھے، تو انہوں نے براہِ راست خریدنے کے بجائے برٹش ورجن آئلینڈز میں کمپنیوں کو ذریعہ بنا کر ہی کیوں خریدا؟

مسئلے کا قانونی جواز کوئی بھی ہو، ایک بات پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے، اور وہ یہ کہ ہمارے ملک کا بالائی ایک فیصدی طبقہ، جس کی دولت تمام واجب الادا ٹیکس ادا کرنے کے باوجود بھی کم نہیں ہوگی، وہ بھی اگر ٹیکس بچانے کے لیے نت نئے طریقوں کی تلاش میں رہیں تو یہ اخلاقی دیوالیے پن کی وہ پستی ہے جس سے نیچے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

ہمارے ٹیکس محصولات کی 68 فیصد رقم ایندھن، خوراک اور بجلی پر عائد کیے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہے، جس کا تمام تر بوجھ غریب کی آمدن پر پڑتا ہے۔

اگر ہمارے امراء اپنی دولت بہاماس منتقل کرنے میں مصروف نہ ہوں تو ہوسکتا ہے کہ یہ شرح 68 فیصد سے کافی کم ہو۔ ایندھن پر ٹیکس شاید 35 فیصد سے کم ہوسکتا ہے، 100 روپے کے ہر موبائل ریچارج پر شاید ہمارے 42 روپے سے کم کاٹے جائیں، اور شاید خطے میں ہمارے پاس بجلی کے نرخ سب سے زیادہ نہ ہوں۔

ہوسکتا ہے کہ یہ اعداد ہم میں سے کچھ لوگوں کے لیے اتنی معنیٰ نہ رکھتے ہوں، لیکن یہ ان لوگوں کی زندگی میں ایک تبدیلی لاسکتے ہیں جن کا اس ملک میں زندہ رہنا بھی ایک جدوجہد بن چکا ہے۔

جانیے: ’منی بجٹ‘ میں 40 ارب روپے کے نئے ٹیکس

اور جہاں تک سیاستدانوں کی بات ہے ۔۔۔ ہائے ہمارے سیاستدان۔ ان کی بے پناہ منافقت تو چونکا دینے والی ہے۔

ہمارے وزیر اعظم ٹیکس نیٹ میں خامیوں کی وجہ سے کھربوں روپے ضائع ہونے کی بات کرتے ہیں، جبکہ ان کے گھرانے کے اپنے افراد اس مسئلے کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔

سینیٹر عثمان سیف اللہ ٹیکس اصلاحات کمیشن کے رکن ہیں ''جسے حکومت کی جانب سے ٹیکس چوری روکنے، محصولات کے دائرے میں توسیع اور ٹیکس وصولی کی اصلاح کرنے کے لیے'' قائم کیا گیا تھا، جبکہ ان کا اپنا خاندان 34 آف شور کمپنیوں کا مالک ہے — یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔

اور سینیٹر رحمان ملک جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تمام کہانی ایک منصوبہ بندی کے تحت را کی جانب سے گھڑی گئی ہے؟ بحرحال ان صاحب کے بارے میں تو بات نہ کرنا ہی بہتر ہے۔

سالہا سال ہمارے قانون ساز، جن کا ایک تہائی حصہ ٹیکس ادا ہی نہیں کرتا، انہوں نے پاکستان میں بالواسطہ ٹیکس مزید بڑھانے کے لیے قانون سازی کی ہے جبکہ وہ خود اور ہمارے ملک کی اشرافیہ بڑے پیمانے پر قابل ٹیکس اثاثے بیرونی ملک منتقل کرنے میں شامل ہیں۔

یہ دونوں ساتھ مل کر چوری کی حوصلہ افزائی کرنے والے نظام سے استفادہ حاصل کرتے ہیں جہاں امراء اور طاقتور جو مرضی چاہیں وہ کر سکتے ہیں۔

اور ہمیشہ کی طرح ان سب چوریوں کا بوجھ غریبوں پر ہی پڑتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Kamran Ahmed Wasti Apr 12, 2016 01:10pm
so why we have selected them????? and assure they will elect again and again
Imran Apr 12, 2016 02:25pm
خود ریلیکس اور عوام پر ٹیکس ۔ یہ تو ہمارے تما م سیاستدانوں کی پارٹی کا منشور ہے۔
Malik USA Apr 12, 2016 07:37pm
@Kamran Ahmed Wasti I was about to write the comment, when I read your comment, this was question which I was asking myself. Still we have closed our eyes and due to this habit these politicians are becoming more and more powerful. So this is the time to come out from the capsule and help those who have stood up against this. "Allah Tala Bhi Us Qom Ki Taqdeer Nahi Badalta, Jo Apni Taqdeer/Halaat Nahin Badalna Chahte"
irfan Apr 13, 2016 06:13am
نواز شریف ایک غریب آدمی ہیں اور انکا تو کوئ اپنا گھر تک نہیں ہے ؛ عوام کی مدد فلاح اور بہبود انکا منشور ہے ؛ یہ یہود اور نصارہ کی شازش ہے کہ پاکستان ایسے محب وطن ؛غریب پرور اور باضیمرشخض کی قیادت میں ترقی نہ کر لے؛اور بعد میں یہ شخص امریکہ کا صدر نہ بن جائے