لاہور: پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال میں ایک جعلی ڈاکٹر دماغ کے آپریشنز کرتی رہی ہیں، جس سے محکمہ صحت کی خراب کارکردگی ظاہر ہوتی ہے.

پنجاب اسمبلی میں جمع کروائی گئی تحریک التواء میں رکن صوبائی اسمبلی امجد علی جاوید کا کہنا تھا کہ نام نہاد نیوروسرجن ڈاکٹر مائما لاہور کے سروسز ہسپتال میں 8 ماہ تک سرجریز کرتی رہی ہیں.

مذکورہ ڈاکٹر کے جعلی ہونے کا علم اُس وقت ہوا جب ہسپتال کے نیوروسرجری وارڈ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رضوان مسعود بٹ نے وارڈ کے راؤنڈ کے دوران ان سے کچھ سوالات کیے، جن کا جواب دینے سے وہ قاصر رہیں.

شک ہونے پر پروفیسر مسعود بٹ نے ہسپتال انتظامیہ کو الرٹ کیا، جنھوں نے مذکورہ ڈاکٹر کی تعلیمی اسناد تصدیق کے لیے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں بھجوائیں اور اس طرح معلوم ہوا کہ یہ اسناد جعلی تھیں.

تحریک التواء میں دعویٰ کیا گیا کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے) کے رہنما ڈاکٹر جعفر نے مذکورہ خاتون کو اپنی منگیتر کہہ کر متعارف کروایا اور ہسپتال میں اُن کے بحیثیت ہاؤس آفیسر انتخاب کے لیے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کیا، جہاں انھوں نے سرجن پروفیسر ڈاکٹر جاوید گردیزی کی زیرِ نگرانی 3 ماہ تک نیورو سرجری وارڈ میں کام کیا.

اس کے بعد ان کا تبادلہ نیوروسرجری ڈپارٹمنٹ میں کردیا گیا جہاں انھوں نے متعدد مریضوں کے آپریشن کیے.

تحریک التواء میں کہا گیا کہ اگرچہ ڈاکٹر جعفر اور خاتون مائما کو ان کی ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا لیکن اس صورتحال نے محکمہ صحت کی انتظامیہ کی کارکردگی اور محکمے کے امور پر ان کی گرفت کے حوالے سے ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس معاملے کو مکمل طور پر اسمبلی میں زیرِ بحث لائے جانے کی ضرورت ہے.

اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال نے مذکورہ تحریک کوملتوی کردیا کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق اورپارلیمانی سیکریٹری برائے صحت خواجہ عمران نذیر دونوں ہی اسمبلی میں موجود نہیں تھے.

نمائندہ ڈان نے سلمان رفیق سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے فون کال اور ٹیکسٹ میسجز کا کوئی جواب نہیں دیا.

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے، جو ایک مہینے میں رپورٹ پیش کرے گی جسے حکام بالا کی اجازت کے بعد عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا.

پارلیمانی سیکریٹریوں کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سیکریٹری آف ہائیر ایجوکیشن و پارلیمانی امور کے علاوہ تمام سیکریٹریز اسمبلی سے غائب تھے اور اس وجہ سے اسپیکر کو کم از کم 20 تحاریک التواء ملتوی کرنا پڑیں.

دوسری جانب اسمبلی میں 6 بل منظور کیے گئے جبکہ ایک پیش کیا گیا.

وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی جانب سے پیش کیے گئے بلوں میں پنجاب فارسٹ (ترمیمی) بل برائے 2016، پنجاب فلڈ پلان ریگولیشن بل برائے 2015، پنجاب ویجیلینس کمیٹیز بل برائے 2016، پنجاب میرج فنکشنز بل برائے 2015، پنجاب اکنامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ترمیمی) بل برائے 2016 اور پنجاب کمیشن برائے خواتین کا کردار (ترمیمی) بل برائے 2015 شامل ہیں.

پنجاب ایگریکلچر، فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی بل برائے 2016 اسمبلی میں پیش کیا گیا.

یہ خبر 15 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Kamal KSA Apr 15, 2016 04:59pm
This shows a complete collapse of hiring process in medical institutions. Our increasing distance from basic values has left a common person, just a 'Tamasha'. The people involved in it, deserve a serious punishment.
Imran Apr 15, 2016 06:15pm
یہ کوئی اتنی بڑی بات تو نہیں ہے۔ ہمارے حکمران کون سا میر ٹ پر آئے ہوتے ہیں جنہوں نے انکی سیلیکشن کرنی ہو تی ہے۔
fiz Apr 15, 2016 09:54pm
Punjab me sb chalta hy mera khyal hai ...
punjabiangem Apr 16, 2016 02:13pm
کیا یہ وہی ینگ ڈاکٹرز ہی تو نہیں جن کے مطالبات کے لئے تمام سیاسی جماعتیں حکومت کو مذاکرات نہ کرنے پر لعن طعن کر رہی تھیں۔۔۔