کافی تنقید، تجاویز اور ترامیم کے بعد بالآخر قومی اسمبلی نے بدھ کے روز پاکستان الیکٹرانک کرائمز بل 2015 منظور کر لیا ہے۔

مجوزہ قانون کی منظوری کس قدر شفاف تھی اور اس میں قانون سازوں کی کتنی دلچسپی تھی، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 342 ممبران کے ایوان میں سے صرف 30 ممبران حاضر تھے۔

اب جبکہ یہ پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں سے منظور ہو چکا ہے، تب بھی یہ تنازعات سے پاک نہیں ہے۔

تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر تجویز کی گئی چند سخت ترین سزاؤں اور شقوں میں ردوبدل کی گئی ہے، مگر اب بھی ایسا بہت کچھ ہے جس کا غلط فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، آزادیء اظہار اور اختلافِ رائے کو دبانے، اور آگہی کی کمی کی وجہ سے سرزد ہونے والے اقدامات کو طویل قید اور بھاری جرمانے عائد کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مختلف مراحل میں اس بل پر جو تنقید سب سے زیادہ ہوئی ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ بل ان افراد نے تحریر کیا ہے، جو کہ ڈیجیٹل دنیا کی اونچ نیچ اور حقائق سے لاعلم ہیں۔

جیسا کہ پیپلز پارٹی کی ممبر قومی اسمبلی شازیہ مری نے توجہ دلائی کہ بل کی شق 22 کے تحت اسپیمنگ، یعنی "وصول کنندہ کی مرضی کے بغیر اسے کوئی پیغام بھیجنا" قانوناً جرم ہے۔

یوں تو شق میں ترمیم کے بعد کچھ بہتری آئی ہے، مگر اب بھی صرف ایک ٹیکسٹ میسج بھیجنے کی سزا 3 ماہ قید تک قرار پا سکتی ہے۔

اسی طرح آئی ٹی ماہر سلمان انصاری توجہ دلاتے ہیں کہ بل میں پیش کی گئی مختلف چیزوں کی تعریفیں مبہم ہیں، مگر ان کی سزائیں سخت رکھی گئی ہیں۔ اور یہ بھی کہ اس جملے سے آخر کیا مطلب اخذ کیا جائے کہ "منفی مقاصد کے لیے ویب سائٹ قائم کرنے پر" تین سال قید اور بھاری جرمانہ۔ منفی مقاصد میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نفرت انگیز تقاریر و بیانات چاہے آن لائن ہوں یا ویسے، ایک حقیقی مسئلہ بن چکے ہیں۔

لیکن کوئی بھی شخص جو یہ جانتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں اختلافِ رائے کا گلا کس طرح گھونٹا گیا تھا، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مذہب یا فرقے کی بنیاد پر تنازعات پیدا کرنے اور نفرت پھیلانے کا دائرہ کار اتنا وسیع ہے کہ کسی چیز کے نفرت انگیز ہونے یا نہ ہونے کی غلط تشریح بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کو سائبر سرگرمیوں کو ضوابط میں لانے کے لیے ایک فریم ورک درکار ہے کیونکہ ہم ایسے ملک میں ہیں جہاں ٹیکنولاجی کا غلط استعمال عسکریت پسندی اور دہشتگردی سے لے کر افراد کی نجی زندگی میں مداخلت، یعنی ذاتی معلومات کی چوری، بلیک میلنگ اور اکاؤنٹ ہیکنگ تک میں کیا جاتا ہے۔

لیکن آن لائن دنیا پر ضوابط عائد کرنے میں پاکستان کا سابقہ ریکارڈ اب تک کچھ خاص نہیں رہا ہے، اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکام کی آن لائن دنیا کے بارے میں فہم کچھ خاص نہیں ہے؛ یوٹیوب کے خلاف بے تکے اقدامات اس کی مثال ہیں۔

اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس شعبے میں ہونے والی تمام قانون سازی کا کڑا جائزہ لیا جائے۔

آگے چل کر جب یہ بل قانون کی صورت اختیار کر لے گا، تب یہ اس حوالے سے بننے والے دیگر قوانین اور ترامیم کی بنیاد بن جائے گا۔ اس لیے پاکستان کو ابھی سے اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ قانون ابھی سینیٹ میں جائے گا۔ اس میں موجود مسائل کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمارے پاس اب بھی وقت ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں