آب و ہوا میں تبدیلی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے زرعی پیداوار میں اضافہ بہت ضروری ہے۔ فائل تصویر رائٹرز
آب و ہوا میں تبدیلی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے زرعی پیداوار میں اضافہ بہت ضروری ہے۔ فائل تصویر رائٹرز

فیصل آباد:  زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم اور آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کے لئے سائنسدانوں کو کم سے کم وسائل بروئے کارلاتے ہوئے پریسین ایگریکلچر کا ایسا مر بوط نظام چھوٹے کاشتکاروں تک پہنچانا ہو گا جس پر عمل کرتے ہوئے ماحول دوست ٹیکنالوجی کے ذریعے پیدا وار میں اضافہ کیا جا سکے۔

 ان باتوں کا اظہار انہوں نے دو روزہ بین الاقوامی سیمینار برائے جدید پریسین ایگریکلچر ٹیکنالوجی کے اختتامی سیشن سے اپنے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ایسا ملک ہے جس میں زرعی پیدا وار کا سب سے زیادہ حجم حاصل کیا جا سکتا ہے مگر آج تک یہاں ٹیکنالوجی کی منتقلی عام کسان تک یقینی نہیں بنائی جا سکی۔

 انہوں نے کہا کہ ہمارے پڑوسی ملک میں صرف گندم کی کاشت کے لئے ڈیڈ لائن مقرر کرنے اور 100 فیصد ڈرل کے ذریعے بیج کاشت کرنے کے عمل سے پیدا وار میں خاطر خواہ اضافہ کر لیا ہے مگر ہمارے ہاں آج بھی چھٹے کے ذریعے کاشت کا پرانا نظام جاری ہے جس کی وجہ سے پودوں کی مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہو سکتی جوکہ پیدا وار میں کمی کا باعث بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں پریسین ایگریکلچر کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو کھاد ‘ بیج اور دیگر زرعی مداخل کی مقدار پودوں کی ضرورت کے مطابق دینے سے نہ صرف فصلات کی پیدا وار کو دو گنا کیا جا سکتا ہے بلکہ فوڈ سکیورٹی بھی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔

ان سے پہلے کینیڈا کی ڈلہوزی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر قمر الزماں نے کہا کہ کینیڈا میں سینسر کے ذریعے پودوں کو مطلوبہ مقدار میں کھاد ‘ زرعی ادویات اور آبپاشی سے منسلک کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے انتہائی کم وسائل سے بھر پور پیدا وار حاصل کی جا رہی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں پریسین ایگریکلچر کے فروغ کے لئے کینیڈا کے سائنسدان عملی تعاون کے لئے تیار ہیں تاکہ چھوٹے کسانوں کے لئے پریسین ماڈل تشکیل دیا جا سکے۔ تقریب سے ڈائریکٹر واٹر مینجمنٹ ریسرچ سنٹر پروفیسر ڈاکٹر اللہ بخش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے ہمارے ہاں وسائل کے متناسب استعمال کی جانب کبھی توجہ نہیں دی جا سکی یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں پانی کیلئے لگائی جانے والی موٹروں کو ٹریکٹروں کے ذریعے زیادہ ہارس پاور فراہم کرکے توانائی ضائع کی جارہی ہے۔

اگر مطلوبہ ہارس پاور کے ذریعے پانی کے پمپ چلائے جائیں تو ڈیزل اور بجلی کی بہت زیادہ بچت یقینی بنائی جا سکتی ہے۔

 تقریب سے ڈلہوزی یونیورسٹی کینیڈا کے سائنسدان ٹیری نگوئن کوانگ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ یونیورسٹیوں میں نہ صرف زرعی شعبے میں بلکہ گھریلو پیمانے پر اور صنعتی سطح پر بھی پریسین کو فروغ دینے کے لئے جدید نظام تشکیل دیا جائے۔ تقریب سے ڈین کلیہ زرعی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال اور پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشاد نے بھی خطاب کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں