اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دے دیا۔

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت کے دوران انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کوثر عباس زیدی اور وکیلِ صفائی منصور آفریدی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

ڈان نیوز کے مطابق ملزمان کے وکیل منصور آفریدی نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزمان کی صحت کے بارے میں میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے، جیل حکام ملزمان کو قید تنہائی رکھ رہے ہیں جبکہ ملزمان کے طبی معائنہ کا حکم عدالت کا فرض ہے۔

انھوں نے کہا کہ چھ مرتبہ عدالت نے چالان واپس کیا ہے ساتویں مرتبہ میں نے خود ہی اعتراض لگایا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عدالت پروسیکیوٹر کا کام کر رہی ہے، پروسیکیوٹر کی عدم تعیناتی سے عدالت پر زیادہ بوجھ آچکا ہے۔

منصور آفریدی نے کہا کہ آئین میں شفاف ٹرائل کا ذکر ہے، عدالت حلف لیتی ہے کہ وہ شفاف ٹرائل کی پابند ہے۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: ملزمان کا راہداری ریمانڈ

ملزمان کے وکیل کا عدالت میں کہنا تھا کہ کس قانون کے تحت چالان واپس کیا گیا ہے، جج کا یہ منصب نہیں ہے، مجھے اس بات پر شرم آرہی ہے۔

وکیل صفائی کی جانب سے عدالت کے جج پر لگائے گئے الزامات پر انسداد دہشت گردی کے فاضل جج سید کوثر عباس زیدی نے کیس کی مزید سماعت سے انکار کردیا اور کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھجوانے کا حکم دے دیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج سید کوثر عباس زیدی نے کہا کہ ذاتی وجوہات کی وجہ سے کیس نہیں سن سکتا۔

تاہم مقدمہ کسی دوسری عدالت منتقل کرنے کے لیے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو تحریری درخواست بھجوا دی گئی ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر طارق جہانگیری کی واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بنچ اور بار کے درمیان اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، کسی وکیل کی جج سے بدتمیزی کی حمایت نہیں کریں گے۔

خیال رہے کہ عمران فاروق قتل کیس کی جیل میں سماعت کا پہلے ہی فیصلہ ہوچکا ہے لیکن اس کا نوٹیفکیشن اب تک جاری نہیں کیا گیا ہے، کئی پیشیوں پر ملزمان کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور ضمانت کی درخواستیں مسترد کی جاچکی ہے۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے ، اسی چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا تھا۔

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے سٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیر کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے تفتیش کی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل: الطاف حسین کے خلاف مقدمہ

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پونڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad khan Apr 22, 2016 12:54am
یہ بنچ اور عدالت کا مسئلہ معلوم ھوتا ھے وکلاء برادری کو کہ اس معاملے کو مل بیٹھ کر حل کرے عدالت کا وقار ہر حالت برقرار رکھا جائے