اسلام آباد : وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کر لیا۔

چالان کی نقول وکیل صفائی کو فراہم کرنے کی ہدایت کر دی گئی۔

عمران فاروق قتل کیس میں عدالت نے ساتویں بار پیش کیے گئے عبوری چالان کو جمع کرلیا، کیس کی آئندہ سماعت اڈیالہ جیل میں کی جائے گی۔

مزید پڑھیں : عمران فاروق قتل:دو مطلوب ملزم افغان سرحد سے گرفتار

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جج سید کوثر عباس زیدی کے روبرو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسر شہزاد ظفر نے عبوری چالان پیش کیا۔

ایف آئی اے کے عبوری چالان میں ملزم محسن علی کو براہ راست قاتل جبکہ معظم علی اور خالد شمیم کو معاونت کار قرار دیا گیا۔

ملزم محسن علی اور کاشف کامران (مرحوم) نے چھریوں کے وار سے عمران فاروق کو قتل کیا جبکہ معظم علی نے ملزمان کو رقم فراہم کی۔

چالان میں کہا گیا ہے کہ الطاف حسین اور محمد انور عمران فاروق کو پارٹی (ایم کیو ایم) کے لیے خطرہ تصور کر رہے تھے اس لیے انہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔

عدالت نے چالان کی نقول ملزمان کے وکلا کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 12 مئی تک ملتوی کر دی۔

یہ بھی پڑھیں : جج کا عمران فاروق قتل کیس سننے سے انکار

ڈان نیوز کے مطابق سیکیورٹی معاملات کے باعث 12 مئی سے مقدمے کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہوگی۔

یاد رہے کہ دو ہفتے قبل جج کوثر عباس زیدی کی جانب سے اس مقدمے کی سماعت سننے سے معذرت کی گئی تھی تاہم بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے انہیں سماعت جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا۔

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیر کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل: الطاف حسین کے خلاف مقدمہ

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں