سادگی پسند عالم چنا کی قد آور کہانی

عالم چنا جنرل ضیاء الحق سے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے۔
عالم چنا جنرل ضیاء الحق سے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے۔

گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق (1982 سے 1998 کے درمیان) پاکستان کے عالم چنا دنیا کے سب سے طویل القامت شخص تھے۔ اطلاعات کے مطابق موت سے پہلے عالم چنا کا قد 7 فٹ 7 انچ لمبا تھا۔

عالم چنا کا تعلق ایک غریب سندھی گھرانے سے تھا۔ انہوں نے کسی قسم کی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ ان کے گھرانے کے مرد روایتی طور پر سہون شریف کے مشہور صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر معمولی ملازمین تھے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں عالم چنا نے اپنے زیادہ تر سال گزارے۔ ان کے ذمے مزار کے کچھ حصوں کو صاف رکھنا ہوتا تھا۔

جنوبی ایشیا میں صوفی بزرگوں کے سالانہ عرس کو جشن کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ صوفی بزرگوں کو ''خدا کا محبوب'' سمجھا جاتا ہے۔ ان کی دنیاوی موت کو وصال (آخرکار اپنے محبوب سے جا ملنا) تصور کیا جاتا ہے۔

صدیوں سے لعل شہباز کے عرس کے موقعے پر دھوم دھام سے میلہ لگایا جاتا ہے۔

1950 کی دہائی سے چلتے پھرتے سرکس (سندھ کے اندر) مزار کے بیرونی احاطے، جہاں میلے کی سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں، کو اپنا مرکز بنا لیتے ہیں۔ 1978 میں سالانہ عرس کے دوران مزار کے بیرونی حصے میں لگائی گئی کسی ایک سرکس کے مالک نے عالم چنا کو سرکس میں ملازمت کی پیش کش کی۔

عالم چنا کے ددھیال کے مطابق (جن سے میری ملاقات 1980 کی دہائی کے اواخر اور پھر 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہوئی تھی) عالم چنا مزار پر ہفتے میں صرف 15 روپے کما رہے تھے! لہٰذا جب سرکس والوں نے انہیں ماہانہ 160 روپے کی پیش کش کی تو انہوں نے فوراً پیش کش قبول کرلی۔

سرکس نے عالم چنا کو مقامی اسٹار میں تبدیل کردیا۔ انہوں نے سرکس کے ساتھ سندھ کے ہر کونے کا سفر کیا۔ چھوٹے قد کے دو جوکرز حسب معمول اپنا کرتب دکھاتے، جس دوران انہیں صرف ان کے درمیان اینٹری لینی ہوتی۔ وہ چلتے ہوئے اندر آتے اور ان جوکرز کو اوپر اٹھانا شروع کرتے تھے (جو خود کو یوں محسوس کرتے کہ جیسے وہ اس دیو ہیکل شخص سے بچ کر بھاگ رہے ہوں)۔ عالم چنا انہیں جھپٹ کر پکڑ لیتے اور اپنے کندھوں پر رکھ دیتے تھے۔

1981 میں ایک شخص نے عالم چنا کو سرکس میں دیکھ کر گنیز بُک آف ورلڈ رکارڈز کے ایڈیٹرز کو خط لکھا۔ خط کے ساتھ انہوں نے سرکس میں عالم چنا کی کھینچی ہوئی کچھ تصاویر بھی بھیج دیں۔

کچھ مہینوں بعد گنیز سے کچھ افسران سندھ کے دارالخلافہ کراچی آئے، اور وہاں سے وہ سہون پہچے جہاں انہوں نے عالم چنا سے ملاقات کی اور ان کا قد ناپا۔

اس وقت ان کا قد 7 فٹ 7 انچ ناپا گیا تھا۔ برطانیہ واپسی پر انہوں نے عالم چنا کا نام دنیا کے سب سے طویل القامت انسان کے طور پر درج کر لیا۔

یہ خبر سب سے پہلے مقامی سندھی اخباروں میں شائع ہوئی، جس کے بعد بڑی تعداد میں اردو اور انگریزی اخباروں نے اس خبر کو شائع کیا، اور پھر آخر کار سرکاری ٹی وی (پی ٹی وی) پر رات 9 بجے کے اردو خبر نامے میں اس خبر کو نشر کیا گیا۔

راتوں رات 'عالم چنا' ایک مشہور نام بن گیا تھا۔ وہ جہاں جاتے، میڈیا نمائندگان اور تماشائی ان کا پیچھا کرتے آجاتے۔

انہیں جس انداز میں شہرت مل رہی تھی وہ اس سے پریشان ہوگئے تھے۔ عالم چنا نے سرکس چھوڑ دی اور پھر سے مزار پر معمولی ملازمت شروع کر دی۔

وہ اس وقت بھی مزار پر کام کر رہے تھے جب اگست 1983 میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف احتجاجی مہم اپنے عروج پر تھی۔

مظاہروں کو 'چند غداروں' کی کارستانی ثابت کرنے کے لیے ضیاء نے صوبے کے تمام اہم مقامات کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ان کا ہیلی کاپٹر جہاں پر بھی اترتا، انہیں مسلسل احتجاجی مظاہروں، کنکروں اور پتھروں کا سامنا کرنا پڑتا۔

ستمبر 1983 کے بعد انہوں نے ایسی ہی ایک جگہ جانے کا تہیہ کیا (وہ جگہ دادو شہر تھا جہاں صورتحال کشیدہ تھی)۔ سندھ میں ضیاء کے مشیروں نے انہیں 'فخر سندھ' عالم چنا سے (فوٹو سیشن کے لیے) ملنے کا مشورہ دیا۔

سہون میں (ایک آدھ درجن پولیس والوں کے ہمراہ) کچھ سرکاری افسران خاموشی سے عالم چنا کے گھر پہنچے۔ انہوں نے مزار کا رخ اس لیے نہیں کیا تھا کیونکہ مزار ضیاء مخالف کارکنوں کے اجلاسوں کا مرکز بن چکا تھا۔

عالم چنا کو کسی نے بتایا کہ پولیس والے گھر کے باہر انتظار کر رہے ہیں۔ عالم چنا چوںکہ تقریباً بالکل ہی غیر سیاسی تھے اس لیے وہ سمجھ نہیں پائے کہ ان کے گھر کے باہر پولیس والے کیوں کھڑے ہیں۔ وہ تب تک مزار پر ٹھہرے رہے، پھر ایک پیغام رساں نے انہیں وہاں آ کر بتایا کہ حکومت انہیں 'صدر' کے ہاتھوں ایوارڈ وصول کرنے کے لیے دعوت دے رہی ہے۔

عالم چنا گھر کی طرف لوٹے اور افسران سے ملاقات کی، جنہوں نے ان کو اپنے ساتھ کراچی چلنے کا کہا۔ انہوں نے کندھے اچکائے اور حامی بھر لی۔ انہیں اگلی شام ان کے ساتھ کراچی روانہ ہونا تھا۔

مگر جیسے ہی افسران وہاں سے گئے، تو سندھی قوم پرستوں کے ایک گروپ نے ان سے اور ان کے خاندان سے ملاقات کی۔ انہوں نے ان سے افسران سے ملاقات کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ چوںکہ سندھی ضیاء کے مظالم کا شکار ہیں، لہٰذا انہیں ان سے ملاقات کرنے سے منع کر دینا چاہیے۔

عالم چنا نے پھر سے کندھے اچکائے اور حامی بھرلی۔ اگلی صبح انہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنا کام کرنے کے لیے مزار کا رخ کیا۔ چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے وہ شام دیر تک وہاں ٹھہرے رہے۔ افسران ان کے گھر آئے، اور علاقے میں گھنٹوں سفر کرنے کے بعد خالی ہاتھ کراچی لوٹ گئے۔

کوئی نہیں جانتا کہ ضیاء کو اس حوالے سے کیا بتایا گیا تھا، مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس شہرت یافتہ سندھی سے ملنے کا ان کا جنون جوں کا توں رہا۔

1985 میں ایک بار پھر انہوں نے عالم چنا کے ساتھ تصویر کھنچوانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس وقت عالم چنا کو بیرون ملک مختلف تقریبات کی دعوتیں ملنا شروع ہوگئی تھیں۔ وہ حقیقی طور پر ایک اسٹار بن چکے تھے، مگر سہون میں وہ تب بھی بالکل اسی طرح مزار جاتے، جیسے ہمیشہ سے جاتے رہے تھے۔

مارچ 1985 میں ان کے پاس پھر سے کچھ سرکاری افسران ملنے آئے (اس بار پولیس والے نہیں تھے)۔ انہوں نے 23 مارچ کو ضیا کے ہاتھوں یومِ پاکستان کی پریڈ تقریب کے دوران ایک خصوصی ایوارڈ وصول کرنے کے لیے دعوت دی۔

21 مارچ کو انہیں کراچی لے جایا گیا اور پھر ہوائی سفر کے ذریعے اسلام آباد پہنچایا گیا۔ تقسیم ایوارڈ کی تقریب کے دوران ہزاروں افراد کے سامنے انہوں نے ضیا سے ایوارڈ وصول کیا اور ایک فوٹوگرافر نے پریس کے لیے اس موقعے کو قید کر لیا۔

پاکستان کے تمام نمایاں اخبارات (اور برطانیہ کے ڈیلی ٹیلی گراف نے بھی) نے ضیا کے ہاتھوں عالم چنا کو ایوارڈ دیتے وقت کی تصویر شائع کی جسے وصول کرنے کے لیے انہیں نمایاں طور پر جھکنا پڑا تھا۔

وہی تصویر کافی سندھی اخبارات میں بھی شائع ہوئی، لیکن ایک الگ کیپشن کے ساتھ۔

بجائے یہ لکھنے کے کہ 'دنیا کے سب سے طویل القامت شخص عالم چنا صدر ضیاء الحق کے ہاتھوں خصوصی ایوارڈ وصول کرہے ہیں'، زیادہ تر سندھی اخبارات نے (سندھی میں) لکھا کہ 'سندھ اب بھی ضیاء کو چھوٹا سمجھتا ہے ۔۔۔'

1988 میں ضیاء کی موت کے بعد بھی عالم چنا کی شہرت حاصل کرتے رہے۔ ضیاء دور کے بعد بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے بھی عالم چنا کو پاکستان کے ایک چہرے کے طور پر استعمال کیا اور عالم چنا بالآخر (سرکاری خرچ پر) بیرون ملک دوروں پر چلے گئے جن میں مختلف خلیجی، ایشیائی و یورپی ممالک اور امریکا شامل تھے۔

انہوں نے 1989 میں شادی کی اور 1990 میں ان کو ایک بیٹا پیدا ہوا۔ لیکن اس وقت ان کی صحت خراب ہونا شروع ہوگئی تھی۔ وہ اکثر مایوس اور تنگ ہو جاتے تھے اور یہی شکایت کرتے کہ وہ اپنی عام سی زندگی میں ہی بہت خوش تھے۔

وہ اکثر اپنے سرکس کے دنوں کے بارے میں باتیں کرتے اور انہوں نے مزار پر اپنی ملازمت کو چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا، باوجود اس کے کہ انہیں دنیا بھر سے نقد انعامات اور تحائف ملنا شروع ہوگئے تھے

1998 میں ان کے گردے ناکارہ ہونا شروع ہوگئے۔ حکومت نے انہیں علاج کے سلسلے میں اپنے خرچے پر امریکا بھیجنے کا فیصلہ کیا، مگر امریکی ہسپتال میں کوما میں چلے گئے اور جلد ہی وفات پا گئے۔ اس وقت ان کی عمر 45 برس تھی۔ وہ سہون میں مدفون ہیں۔

عالم چنا کے 27 سالہ بیٹے ان کی دلی خواہش کو پورا کروانے کے لیے حکومت سے بارہا اپیل کرچکے ہیں: وہ خواہش تھی ان کے محبوب شہر سہون میں ایک یونیورسٹی کا قیام۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 25 اکتوبر 2015 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں