گلگت، خیبرپختوخوا قبائل میں سرحدی تنازع میں شدت

اپ ڈیٹ 09 مئ 2016
کوہستان کےعلاقے ہربن  میں مظاہرین کی جانب سے قراقرم ہائی وے بلاک کیے جانے کے باعث ٹریفک کی روانی معطل ہے—۔فوٹو/ ڈان
کوہستان کےعلاقے ہربن میں مظاہرین کی جانب سے قراقرم ہائی وے بلاک کیے جانے کے باعث ٹریفک کی روانی معطل ہے—۔فوٹو/ ڈان

گلگت: دیا میر-بھاشا ڈیم کے مقام پر گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر اور خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان کے رہائشیوں کے درمیان سرحدی تقسیم کا تنازع مزید شدت اختیار کرگیا ہے کیوں کہ دونوں طرف کے قبائل نے اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا ہے۔

کوہستان کا ہربن قبیلہ اور دیامیر کا تھور قبیلہ گندلو نالہ کے علاقے میں 8 کلومیٹر کے علاقے کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔

اتوار کو دونوں طرف کے لوگ سڑک پر جمع ہوئے اور مسئلے کو جلد حل نہ کیے جانے کی صورت میں متعلقہ حکام کو سنگین نتائج سے خبردار کیا۔

تھور قبائلی عمائدین نے چلاس میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر دھرنا دیا اور الزام لگایا کہ ہربن قبیلے کے لوگ گلگت بلتستان کے رہائشیوں کو ہراساں کر رہے ہیں تاکہ حکومت پر اس معاملے کا فیصلہ اپنے حق میں کروانے پر دباؤ ڈالا جاسکے۔

احتجاج میں تھور کے 20 سے عمائدین اور تھور یوتھ آگنائزیشن کے نمائندوں نے حصہ لیا۔

اس موقع پر حاجی دلبیر خان، سعید اللہ خان، فدا خان، فضل الحق اور دیگر کا کہنا تھا کہ ہربن قبیلے کے لوگ گلگت بلتستان کے لوگوں کو گذشتہ ایک ہفتے سے ہراساں کر رہے ہیں۔

انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوہستان پولیس کی موجودگی میں ہربن قبیلے کے لوگ روزانہ 3 گھنٹے کے لیے قراقرم ہائی وے کو بلاک کردیتے ہیں تاکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو یہاں سے گزرنے سے روکا جاسکے۔

تھور قبیلے کے افراد نے الزام لگایا کہ مسلح افراد گلگت بلتستان کے مسافروں کے شناختی کارڈز چیک کرتے ہیں اور انھیں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کا کوہستان سے قراقرم ہائی وے پر سفر خطرناک ہوچکا ہے۔

انھوں نے خیبر پختونخوا کی انتظامیہ پر قانون توڑنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے کا بھی الزام لگایا اور خبردار کیا کہ صورتحال خراب تر ہوچکی ہے اوراگر حکومت نے بروقت ایکشن نہ لیا تو یہاں کوئی تصادم بھی ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان اسکاؤٹ اور پولیس مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔

تھور مظاہرین کا کہنا تھا کہ 'تاریخی طور پر یہ متنازع علاقہ تھور قبیلے کی ملکیت ہے، ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں لیکن کوہستان کے لوگ ہمیں اپنی زمین سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم اپنے حق کے لیے لڑیں گے اور اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے'۔

مظاہرین نے اعلان کیا کہ اگر باؤنڈری کمیشن کا فیصلہ ان کے حق میں نہیں آیا تو وہ اسے تسلیم نہیں کریں گے، 'اگر خیبر پختوخوا کی حکومت کوہستان کے لوگوں کو گلگت بلتستان کے لوگوں کو ہراساں کرنے سے روکنے میں ناکام رہی تو ہم بھی قراقرم ہائی وے پر احتجاج کریں گے'۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کیا گیا باؤنڈری کمیشن اس تنازع کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

فروری 2014 میں دونوں قبائل کے درمیان مسلح تصادم میں 5 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے، جس کے بعد فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) اہلکاروں کو اس متنازع مقام پر تعینات کیا گیا اورحکام نے سیز فائر کا اعلان کیا۔

دیامیر کے ایک رہائشی عمر فاروق کا کہنا تھا کہ اس علاقے کی صورتحال دن بہ دن خراب ہوتی جارہی ہے۔

دوسری جانب ہربن قبیلے نے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے 15 مئی کی ڈیڈلائن رکھی ہے، انھوں نے اپنے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں قراقرم ہائی وے کو متعدد مقامات سے بلاک کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔

اگر ہربن قبیلے کے لوگوں نے اپنا احتجاج ختم نہ کیا تو تھور قبیلے کے ایک مقامی جرگے نے بھی قرارقرم ہائی وے پر احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے عمائدین پر مشتمل 4 جرگے بھی اب تک اس معاملے کا کوئی حل نکالنے میں ناکام رہے ہیں۔

یہ خبر 9 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

shahnaz May 09, 2016 04:12pm
زمین حکومتِ پاکستان کی ملکیت کیوں نہیں؟