ننگا پہاڑ اور ننگی گالی
پہاڑ ننگا ہے اور اتنا ننگا کہ دنیا بھر کے فحش لوگ اسے دیکھنے آیا کرتے ہیں۔ ملک اسلامی ہے اور اتنا اسلامی کہ دنیا بھر میں جہاد کرنے کے لئے لوگ یہاں سے جایا کرتے ہیں۔
اتنا ننگا پہاڑ اتنے اسلامی ملک کے لئے ننگی گالی کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟
نتیجہ وہی جو چلاس میں ہفتے کی رات ہوا۔ طالبان نے اس واقعے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں سے اتار کر عمران خان کی دیکھا دیکھی ڈرون پر سوار کروا دی ہے۔ یہ پہلا واقعہ ہے جس کے بارے میں طالبان کا مؤقف عمران خان سے ملتا جلتا ہے۔
اس سے پہلے دہشت گردی کے تمام واقعات پر عمران خان کا مؤقف طالبان سے ملتا جلتا ہوا کرتا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ چالیس ہزار پاکستانی مار کر اسے امریکہ کی جنگ کہتے ہیں اور عمران خان چالیس ہزار پاکستانی مرنے کے باوجود اسے امریکہ کی جنگ قرار دیتا ہے۔
وہ جس واقعہ کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ ہم نے کیا ہے، عمران خان اُسے بھی حضرت میزائل کی کرامات کہہ کر ڈرون کے شکار کا ہانکہ لگا دیا کرتے تھے۔
عمران خان جو بھی کہیں ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے طالبان اس ملک کے سب سے ذمہ دار شہری ہیں۔ جو کرتے ہیں کم سے کم اس کی ذمہ داری نامعلوم افراد، ڈرون یا تیسری قوت وغیرہ پر نہیں ڈالتے اور نا ہی وزیر داخلہ چوہدری نثارکی طرح اسمبلی میں کھڑے ہو کر یہ پوچھتے ہیں کہ کہاں سے آئی ہے یہ دہشت گردی؟ کس نے کروائی ہے یہ دہشت گردی؟
طالبان کو چاہیے کہ ذمہ داری قبول کرنے کا ایک ایک فون چوہدری نثار اور عمران خان بلکہ سب اسلامی سیاسی اور سیاسی اسلامی جماعتوں کو کر دیا کریں کیونکہ جس جس اخبار اور چینل کو طالبا ن ذمہ داری قبول کرنے کا فون کرتے ہیں۔ وہ طالبان دوست سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے دفتروں میں فحش ہونے کی وجہ سے نہیں آتا۔
تازہ واقعہ میں ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ خبر کے ساتھ فحش میڈیا ننگے پہاڑ کی تصویر بھی دے سکتا ہے۔ اس لئے کسی اسلامی جماعت کی کوئی نیک پروین یہ خبر پڑھنے یا ٹی وی پر دیکھنے کا رسک نہیں لے سکتی۔
اس بے شرم پہاڑ پر حملے کا سبب طالبان نے نئی جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا عمران خان کی طرح ڈرون حملوں کو ٹھہرا کر اپنی ذمہ داری تو پوری کر دی۔ اب اگر کوئی طالبان سے گولیاں یا تحریک انصاف سے گالیاں کھانا چاہتا ہے تو یہ پوچھ دیکھے کہ کیا وہ سیاح ڈرون پر بیٹھ کر آئے تھے؟ یا ڈرون کسی ننگے پہاڑ سے اڑتے ہیں؟
مجھ میں تو یہ پو چھنے کی ہمت اب نہیں ہے کیونکہ میں ایک دفعہ داتا صاحب کے مزار پر حملے کے بعد یہ پوچھ بیٹھا تھا کہ کیا ڈرون داتا صاحب اڑاتے ہیں جو ڈرون کے ردعمل میں لنگر لینے آنے والوں کی سولہ سولہ بوٹیاں کر دی گئیں۔ بس اس کے جواب میں طالبا ن کے دوستوں نے وہ وہ گالیاں دیں جو میں پنجاب میں پلنے بڑھنے کا شرف رکھنے کے باوجود سننے سے محروم تھا۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف والے جتنی محنت طالبان کی کاروائی ڈرون کے کھاتے میں ڈالنے اور اختلاف رائے کرنے والوں کو دینے کے لئے گالیاں سوچنے پر کرتے ہیں اس سے آدھی محنت وہ ڈرون بنانے پر کریں تو ایک بغیر میزائل کا ہی سہی بنا تو لیں گے ہی اور پارٹی بنانے پر کریں تو ایک ڈھنگ کی کم گالیاں دینے والی پارٹی بنا سکتے ہیں۔
بہرحال ڈھنگ کی پارٹی بنانا تحریک انصاف والوں کا اندرونی مسئلہ ہے۔ اس لئے ہم ڈرون پر واپس آتے ہیں۔ اسی ڈرون پر جس کے حملے کا جواب دینے کے لئے ننگے پہاڑ پر آنے والے کم ننگے سیاح قتل کر دیے گئے۔
ڈرون کے بارے میں تحریک انصاف والوں کاکہنا ہے کہ ڈرون اور دہشت گردی میں وہی تعلق ہے جو تحریک انصاف اور گالیوں میں یعنی جہاں جہا ں ڈرون وہاں وہاں دہشت گردی.
تحریک انصاف اور گالیوں میں بلکہ تحریک انصاف، گالیوں اور ننگے پہاڑ پر حملہ کرنے والے طالبان میں ایک اور بات بھی مشترک ہے اور وہ یہ کہ تحریک انصاف، طالبان اور گالیوں تینوں کے بارے میں یہ پتہ چلانا مشکل ہے کہ انہیں کس نے بنایا تھا۔
طالبان اور تحریک انصاف کی تہمت تو ISI کو اٹھانی پڑتی ہے اور گالیوں کے شناختی کارڈ پر ولدیت کا خانہ ابھی خالی ہے۔
بہرحال اب طالبان اور تحریک انصاف، گالیوں کی ہی طرح ہمار ے یہاں کی سیاسی حقیقت ہیں۔ ان تینوں میں سے دو یعنی گالیوں اور طالبان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں بنایا کسی نے بھی ہو استعمال حسب ضرورت سب ہی کرتے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی اسے استعمال کررہا ہے اسے ابھی صرف اپنے سیاسی جد کی طرح استعمال ہو جانے کا الزام دیا جا سکتا ہے۔
یہ استعما ل ہو جانا بھی بہت مزے کی چیز ہے۔ میرے والد کے ایک دوست جو کافی پڑھے لکھے تھے۔ تحریک انصاف بننے سے پہلے بھی بہت گالیاں دیا کرتے تھے۔ انہیں میر ے والد نے ایک بار یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ تم پڑھے لکھے آدمی ہو گالیاں نہ دیا کرو جس پر انہوں نے حکمت کا یہ انمول موتی جواباً لڑھکا دیا کہ گالاں کڈھنیاں نہیں تے بنیاں کیوں نے!!
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں













لائیو ٹی وی
تبصرے (16) بند ہیں