کراچی: 11 ستمبر 2001 وہ دن ہے، جس نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی زندگیاں بدل ڈالیں۔ امریکا میں دہشت گردی کے حملوں کے بعد نسلی تعصب معمول بن گیا، خاص طور پر امریکا کی مسلمان آبادی کو اپنے مذہب اورحب الوطنی کا جواز اُس ملک کو پیش کرنا پڑا جسے وہ اپنا گھر سمجھتے تھے۔

حال ہی میں اداکار اور فلم ساز عمیر حمید نے اس مخصوص موضوع پر مبنی 12 منٹ دورانیہ کی شارٹ فلم کی اسکریننگ 'دی سیکنڈ فلور' (ٹی ٹو ایف) میں منعقد کی، یہ فلم ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے مسلسل خوف سے نمٹنے کے حوالے سے ہے۔

فلم 'ایشز' (Ashes) کا آغاز محمد حمزہ نامی ایک کردار سے ہوتا ہے، جو ایک امریکی ایئرپورٹ سے واشنگٹن ڈی سی جانے کے لیے ایک پرواز میں روانہ ہورہا ہے اور اس نے مکمل طور پر روایتی مسلم لباس پہن رکھا ہے۔ اس دوران حمزہ کو ایک سیکیورٹی عہدیدار کی جانب سے روک دیا گیا۔

فلم کے اگلے سین میں، ہتھکڑی پہنے زخمی حمزہ سیکیورٹی عہدیدار سے سوال کرتا نظر آیا کہ اسے کہاں اور کیوں لے جایا جارہا ہے، لیکن کوئی جواب دیئے بغیر ان افسران نے حمزہ کے بیگ میں موجود سامان کو ٹیبل پر بکھیر دیا جس میں امریکا کا ایک نذرِ آتش کیا گیا پرچم، قرآن کریم اور ایک چاندی کا ڈبہ نکلا۔ حمزہ سے اس 'کتاب' سے کچھ پڑھنے اور جلائے گئے امریکی پرچم کی وضاحت طلب کی گئی۔

حمزہ نے قرآن کریم سے کچھ آیات پڑھیں جن میں کہا گیا کہ ایک انسان کو قتل کرنے کا مطلب تمام انسانیت کا قتل ہے۔ اس جواب سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے افسر نے چاندی کا ڈبہ کھولا جس میں سے سفید پاؤڈر جیسا مواد برآمد ہوا، جس کے بعد حمزہ نے افسر سے التجا کی کہ اسے وضاحت کرنے کا موقع دیا جائے۔

فلم کے اگلے مناظر میں حمزہ نے افسران کو سمجھایا کہ اس کا بھائی امریکی میرین کے ساتھ کام کرتا تھا جو افغانستان کی ایک چیک پوسٹ پر دہشت گردی کے واقعے میں ہلاک ہوگیا۔ امریکا کا جلا ہوا پرچم اور ان کے بھائی کی راکھ وہ چند چیزیں تھیں جو افغانستان سے ان کے والدین کو بھیجی گئیں۔ 3 منٹ دورانیہ کی اس ویڈیو میں حمزہ نے اپنے خاندان کے امریکا منتقل ہونے، اپنے بھائی کے امریکی فوج میں کام کرنے کے جذبے اور فوج میں بھیجتے وقت ان کے والدین کی ہچکچاہٹ کے حوالے سے بات کی۔

حمزہ اُن افسران سے کہہ رہا تھا، 'میرے والدین نے میرے بھائی سے کہا تھا کہ افغانستان جانے کے فیصلے کے بارے میں ایک بار پھر سے سوچ لو، لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے جس نے اسے سب کچھ دیا اور یہی موقع ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کر سکتا ہے' ۔

اگلے سین میں، افسران نے حمزہ کے ہاتھ کھولے اور اسے جانے کا کہا۔ ایک سیکیورٹی عہدیدار نے حمزہ سے سوال کیا 'کیا تم واشنگٹن ڈی سی میں آرلنگٹن قبرستان جارہے تھے؟' تاہم حمزہ نے صرف افسر کو گھورنے پر اکتفا کیا، اپنا سامان اٹھایا اور وہاں سے چل دیا۔

فلم کے اختتام کے بعد ٹی ٹو ایف کے ایک رضاکار نے عمیر حمید سے سامعین کے کچھ سوالات کے جوابات دینے کی درخواست کی۔

امریکا میں پیدا ہونے والے عمیر حمید ڈلاس، ٹیکساس میں پلے بڑھے اور بعد میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس منتقل ہوگئے۔

حمید کا کہنا تھا 'میں اسکول میں تھا جب 9/11 کا واقعہ ہوا اور اس کے بعد میں خود کو کھل کر مسلمان کہنے سے ڈرتا تھا۔ میرے بھائی نے اپنی گاڑی سے نمبر پلیٹ ہٹادی تھی کیوں کہ اس میں عربی میں ان کا نام لکھا تھا'۔

2010 میں نیویارک فلم اکیڈمی سے گریجویشن کے بعد عمیر حمید نے اس فلم کو اپنے فائنل پراجیکٹ کے طور پر جمع کروایا، انھوں نے سوچا کہ وہ واپس پاکستان منتقل ہوجائیں۔ ان کا کہنا تھا 'میں اس سال فروری میں پاکستان واپس آیا اور تب سے ہی لوگوں نے مجھ سے سوالات کرنا شروع کردیئے کہ میں یہاں واپس کیوں آیا جبکہ وہاں میرے پاس کئی مواقع موجود تھے۔ لیکن میں ذاتی فلموں اور تھیٹر میں دلچسپی رکھتا ہوں'۔

ان سے 9/11 سے متعلق سازشی نظریات کے حوالے سے پوچھا گیا جس کو انہوں نے 'وقت' اور 'انٹیلی جنس' کی بربادی قرار دیا۔

اپنے آنے والے پراجیکٹس کے حوالے سے عمیر حمید کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایک فیچر فلم کا اسکرپٹ تیار ہے جس میں پاکستان کو مثبت انداز میں پیش کیا جائے گا۔

یہ مضمون 16 مئی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں