بغیر چھت کے گھر، آئی ڈی پیز کے منتظر

02 جون 2016
پاک فوج نے جنوبی وزیرستان کے گھروں کو عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بننے سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کی چھتیں ہٹا دیں—۔فوٹو/ اے ایف پی
پاک فوج نے جنوبی وزیرستان کے گھروں کو عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بننے سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کی چھتیں ہٹا دیں—۔فوٹو/ اے ایف پی

شکائی: پاکستان کے قبائلی علاقے فاٹا کی ایجنسی جنوبی وزیرستان میں فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں تباہ ہونے والے گھروں کی چھتیں پاک فوج نے ہٹا دی ہیں تاکہ اس بات کا 'فضائی جائزہ' لیا جاسکے کہ کہیں عسکریت پسندوں نے وہاں پناہ تو نہیں لے رکھی۔

جنوبی وزیرستان کبھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ایک مضبوط گڑھ رہا ہے، جہاں عسکریت پسند آرام سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے تاہم فوج کا کہنا ہے کہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع اس پہاڑی علاقے کو 'آخری دہشت گرد' سے بھی خالی کروایا جاچکا ہے۔

اور اب افغانستان کی سرحد سے منسلک پاکستان کے قبائلی علاقے فاٹا کے اس علاقے میں ہزاروں بے گھر خاندانوں کو خوش آمدید کہا جارہا ہے، جن میں سے اکثر کو محفوظ جائے پناہ کی پیشکش بھی نہیں کی گئی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں میڈیا کو آرمی کے ہیلی کاپٹر میں مکین، لدھا اور کنی گُرم کے علاقوں کا ایک فضائی دورہ کروایا گیا۔

پاک فوج نے جنوبی وزیرستان کے گھروں کو عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بننے سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کی چھتیں ہٹا دیں—۔فوٹو/ اے ایف پی
پاک فوج نے جنوبی وزیرستان کے گھروں کو عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بننے سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کی چھتیں ہٹا دیں—۔فوٹو/ اے ایف پی

اس دورے کے موقع پر آرمی کے ایک فوجی عہدیدار نے کہا، 'کچھ مکانات موسم کی وجہ سے تباہ ہوئے، لیکن سب نہیں۔'

مزید پڑھیں:آپریشن ’راہ نجات' متاثرین کی واپسی کا تیسرا مرحلہ شروع

مذکورہ عہدیہدار نے صحافیوں کو بتایا، 'فوج نے ان گھروں کی چھتیں ہٹا دی ہیں تاکہ اس بات کا بہتر فضائی جائزہ لیا جاسکے کہ کہیں عسکریت پسند ان قلعہ نما کچے گھروں میں پناہ تو نہیں لے رہے'۔

ہیلی کاپٹر سے متعدد ایسے گھر نظر آرہے تھے، جن کی چھتیں نہیں تھیں، لیکن بظاہر وہ بالکل صحیح حالت میں تھے اور ان میں موجود سامان بھی نظر آرہا تھا، تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ فوج نے کتنے گھروں کی چھتیں ہٹائیں اور کتنے گھر موسم اور آپریشن کی وجہ سے تباہ ہوئے۔

گھروں کی چھتیں ہٹا دی گئی ہیں اور ان میں موجود سامان واضح نظر آرہا ہے—۔فوٹو/ اے ایف پی
گھروں کی چھتیں ہٹا دی گئی ہیں اور ان میں موجود سامان واضح نظر آرہا ہے—۔فوٹو/ اے ایف پی

یاد رہے کہ پاک فوج نے 2009 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور تنظیم کے اُس وقت کے سربراہ بیت اللہ محسود کے خلاف آپریشن 'راہ نجات' کا آغاز کیا تھا اور فوج کے مطابق اس آپریشن کے دوران 72ہزار خاندان بے گھر ہوئے تھے۔

ان تمام معاملات کی نگرانی کرنے والے کرنل محمد عمران نے صحافیوں کو بتایا کہ 7 سال بعد 42 ہزار کے قریب خاندانوں کو واپس ان کے گھروں کو بھیجا جاچکا ہے جبکہ مزید 30 ہزار خاندان رواں برس کے اختتام تک واپس چلے جائیں گے۔

دوسری جانب پاکستانی حکام نے اس علاقے میں موجود مختلف دیہاتوں میں سڑکوں کی دوبارہ تعمیر اور اسکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پانی کی فراہمی کا کام بھی مکمل کرلیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:جنرل کیانی کے کہنے پر وزیرستان آپریشن پر زور نہیں دیا، گیلانی

کرنل عمران نے بتایا، 'ہم آئی ڈی پیز کی واپسی سے قبل ان کے لیے تمام سہولیات کی دستیابی یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں'۔

تاہم رہائشیوں نے خبردار کیا ہے کہ محفوظ پناہ گاہوں کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہوگا۔

جنوبی وزیرستان کے کچھ علاقوں کے فضائی جائزے کے دوران لی گئی تصویر—۔فوٹو/  اے ایف پی
جنوبی وزیرستان کے کچھ علاقوں کے فضائی جائزے کے دوران لی گئی تصویر—۔فوٹو/ اے ایف پی

جنوبی وزیرستان میں گھروں کی چھتیں روایتی طور پر لکڑی اور اسٹیل کی شیٹوں کی مدد سے بنائی جاتی ہیں تاکہ سردیوں میں شدید برفباری کا مقابلہ کیا جاسکے، لیکن ہیلی کاپٹر سے جائزے کے دوران سیکڑوں گھر ایسے نظر آئے جن کا صرف لکڑی کا ڈھانچہ موجود ہے اور گھر کے اندر موجود سامان واضح ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ متاثرہ خاندانوں کو ان کے گھروں کی دوبارہ تعمیر کے لیے 4 لاکھ روپے فراہم کرے گی.

مزید پڑھیں:'آپریشن راہ نجات' متاثرین کی 16 مارچ سے واپسی

تاہم مکین کے رہائشی 55 سالہ حاجی محمد کا کہنا تھا کہ '4 لاکھ روپے میں تو ایک کمرے کے مکان کی تعمیر بھی ممکن نہیں ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا، 'میرا خاندان، خصوصاً خواتین واپس جانے کو بے تاب ہیں، لیکن یہ شاید ممکن نہیں ہے'۔

جب کرنل عمران سے پوچھا گیا کہ کیا گھروں کی تعمیر کے حوالے سے الاٹ کیے گئے فنڈز کافی ہوں گے تو ان کا کہنا تھا، 'میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔'

ایک سینئر فوجی عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ فاٹا میں تعمیرنو کے لیے 2 ارب 98 کروڑ 35 لاکھ 22 ہزار روپے (285 ملین ڈالر) کی ضرورت ہے لیکن حکومت نے اب تک صرف 5 ارب 2 کروڑ 48 لاکھ روپے (48 ملین ڈالر) جاری کیے ہیں، جن میں سے ایک ارب 30 کروڑ 85 لاکھ روپے (12.5 ملین ڈالر) بے گھر ہونے والے خاندانوں میں تقسیم کیے گئے۔

جنوبی وزیرستان کے کچھ علاقوں کے فضائی جائزے کے دوران لی گئی تصویر—۔فوٹو/ اے ایف پی
جنوبی وزیرستان کے کچھ علاقوں کے فضائی جائزے کے دوران لی گئی تصویر—۔فوٹو/ اے ایف پی

کنی گُرم کے رہائشی محمد اسلم نے بتایا کہ سیکیورٹی کی صورتحال 'پرامن' اور 'فوج کے مکمل کنٹرول' میں ہے۔

مزید پڑھیں:'شمالی وزیرستان میں مشترکہ آپریشن نہیں ہو گا'

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 3 منزلہ مکانات کے صرف 2 ہی کمرے سلامت ہیں اور ان کا 20 افراد پر مشتمل خاندان 'خوش قسمت' ہے کہ انھیں یہ بھی مل گیا۔

32 سالہ محمد اسلم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک اوسط گھر کی تعمیر کے لیے 15 لاکھ 70 ہزار روہے (15 ہزار ڈالر) کی رقم بطور معاوضہ کافی ہوگی۔

دوسری جانب شمالی وزیرستان کے رہائشی ملک محمد غلام کا کہنا ہے کہ خطے کے انتظامی ہیڈ کوارٹر میران شاہ میں زیادہ تر گھر تباہ ہوچکے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ شام 7 بجے سے صبح 7 بجے تک کرفیو نافذ کردیا جاتا ہے اور ہم بازار تک بھی نہیں جاسکتے، ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم اپنے گھر کی حدود سے باہر نہ نکلیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

alirehman Jun 02, 2016 10:07pm
یہ بغیر چھت کے گھر جونظرارھے ھیں اس کے چھتیں پرا فوج نے سکریپ والے کو بھجدیے ہیں اور یہ بھی نہیں پرا لوھے کی دروازیں اور کھڑکیا بھی نکا لیں ھیں