پشاور: طورخم بارڈر پر افغان سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں 3 پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 13 افراد زخمی ہوگئے، جس کے بعد طورخم سے لنڈی کوتل بازار تک کرفیو نافذ کردیا گیا۔

افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے گزشتہ شام سے شروع ہونے والی بلااشتعال فائرنگ کے بعد پاک افغان سرحدی علاقہ کشیدگی کا شکار رہا۔

— فوٹو: بشکریہ علی اکبر
— فوٹو: بشکریہ علی اکبر

بارڈر انتظامیہ کے عہدیداران کے مطابق دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ 12 گھنٹے تک جاری رہا جس دوران افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مارٹر گولے بھی فائر کیے گئے، جبکہ زخمی ہونے والے اہلکاروں اور دیگر افراد کو لنڈی کوتل ہسپتال منتقل کیا گیا۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق فائرنگ کے تبادلے کے بعد طورخم بارڈر ہر طرح کی نقل و حرکت کے لیے بند کردیا گیا، جبکہ مزید جانی نقصان سے بچنے کے لیے طورخم سے لنڈی کوتل بازار کرفیو نافذ کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: طورخم بارڈر پر پاک-افغان فورسز میں فائرنگ کا تبادلہ

ذرائع کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فائر کیے گئے زیادہ تر مارٹر گولے طورخم بارڈر کے قریبی علاقوں باچا خیل اور پاسید خیل کے علاقوں میں گرے، جس کے بعد ان علاقوں سے 200 خاندان لنڈی کوتل منتقل ہوگئے۔

— فوٹو: بشکریہ علی اکبر
— فوٹو: بشکریہ علی اکبر

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ فائرنگ کا تبادلہ رک جانے کے باوجود صورتحال کشیدہ ہے اور دونوں ممالک کی بکتر بند گاڑیاں طورخم بارڈر پر آمنے سامنے کھڑی ہیں۔

فائرنگ کا سلسلہ تھمنے کے بعد علی الصبح اعلیٰ سیکیورٹی عہدیدار نے طورخم بارڈر کا دورہ کیا، تاہم دونوں ممالک کے حکام کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

حکام کے مطابق پاکستان طورخم بارڈر پر اپنی حدود میں 130 فٹ لمبا گیٹ تعمیر کر رہا ہے، لیکن افغانستان اس سیکیورٹی گیٹ کی تعمیر میں روڑے اٹکا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: طورخم بارڈر پر مزید فوج کی تعیناتی سے کشیدگی برقرار

افغان حکام کو بارڈر پر گیٹ کی تعمیر اور خاردار تاروں پر اعتراض ہے، جس کے باعث سرحد پر کشیدگی گزشتہ دو ماہ سے جاری ہے۔

اس سے قبل بھی کئی دن تک طورخم گیٹ پر آمد و رفت بند ہوگئی تھی، جس کے باعث عام لوگ شدید مشکلات سے دوچار ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ گذشتہ کچھ سالوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی اور ان کی جانب سے سرحدی علاقوں میں حملوں کا ذمہ دار قرار دیتے آئے ہیں۔

تاہم عالمی طاقتوں کی مداخلت کے بعد گذشتہ کچھ ماہ سے پاک افغان تعلقات میں بتدریج بہتری دیکھنے میں آئی ہے جس کی ایک مثال طورخم سرحد کو دوبارہ کھولے جانے اور دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے حالیہ مشترکہ آپریشنز بھی ہیں، جن میں دونوں ممالک کے اہم خفیہ اداروں نے معاونت کی۔

دفتر خارجہ کا احتجاج

پاکستان نے افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے طورخم بارڈر واقعے پر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا۔

افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے افغان فورسز کی بلااشتعال فائرنگ پر احتجاجی مراسلہ دیا گیا، اور ساتھ ہی افغان حکومت سے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات دو طرفہ تعلقات پر منفی اثر ڈالیں گے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Jun 14, 2016 12:20am
یہ بہت سنجیدہ معاملا ھے اس کو سنجیدگی سے لینا ھوگا ھم جارحیت کی مذمت کرتے ھیں دونوں ملکوں کو بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کرنا ھوگا یہ مسئلہ اج کا نہیں ھے بہت پرانا مسئلہ ھے اصل مسئلہ ڈیورنڈ لائن ھے ڈیورنڈ لائن 1893ء میں اس وقت کے برٹش انڈیا اور افعانستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد ایک عارضی جنگ بندی لائن تھی جس پر معاہدہ ھوا تھا انگریزوں کے ساتھ پاکستان اس وقت وجود میں نہیں ایا تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد نہ پاکستان اور نہ افعانستان نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوئی کوشش کی ھے دونوں طرف کے پختون اس کو دونوں ملکوں کے درمیان سرحد نہیں مانتے اس لئے یہ مسئلہ بار بار اٹھتا ھے دونوں ملکوں کو چاہئے کہ اپس میں بیٹھ کر بات چیت لے ذریعے یہ مسئلہ حل کریں فائرنگ اور جوابی فائرنگ سے یہ مسئلہ خطرناک ثابت ھوسکتا ھے اسکا واحد حل بات چیت ھے