کراچی: پاکستانی اسٹاک مارکیٹ بہتری کی جانب گامزن ہے، امن عامہ کی بہتر صورتحال بھی معاشی شرح نمو میں اپنا کردار ادا کررہی ہے اور جلد ہی اسٹاک مارکیٹ کا جائزہ لے کر درجہ بندی جاری کرنے والا امریکی ادارہ ایم ایس سی آئی پاکستان کو ’ابھرتی ہوئی مارکیٹ‘ کا درجہ دینے والا ہے۔

لیکن ایک نجی کمپنی کے شریک بانی علی سائیگل کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کا پر تشدد ماضی فراموش کرکے یہاں سرمایہ کاری پر آمادہ کرنا اب بھی ایک مشکل کام ہے۔

یہ بھی پڑھیں: براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 10 فیصد اضافہ

برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب بھی بیرونی سرمایہ کاروں کی آمد میں وہی مسئلہ درپیش ہے یعنی ’پاکستان کی ساکھ‘۔

ایک دہائی تک پاکستان کے مختلف شہروں کی گلیوں میں گونجے والی گولیوں اور بم دھماکوں کی آواز نے سرمایہ کاروں کو اس قدر خوف زدہ کردیا ہے کہ وہ پاکستان آنے کے بجائے سائیگل سے کہتے ہیں کہ ملاقات کیلئے دبئی آجائیں۔

مزید پڑھیں:رواں سال 280 ارب روپے کی عید خریداری کا امکان

علی سائیگل کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ تو ایسے ہیں جو کبھی پاکستان آئے بغیر ہی منفی تاثر لیے بیٹھے ہیں، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، جب یہ لوگ پاکستان آتے ہیں تو یہاں ماحول اپنی توقعات کے برعکس پاتے ہیں۔

علی کی طرح حکومت پاکستان بھی بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کیلئے پریشان ہے تاکہ معاشی شرح نمو کو 4.7 سے بڑھا کر 6 فیصد تک پہنچایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: کے ایس ای 100 انڈیکس میں 3 فیصد کا ریکارڈ اضافہ

ماہرین معاشیات کا یہ کہنا ہے کہ 19 کروڑ کی آبادی والے ملک کی اقتصادی شرح نمو کم سے کم 6 فیصد تو ہونی چاہیے۔

اگرچہ 250 ارب ڈالر کی پاکستانی معیشت گزشتہ 8 سال کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کررہی ہے تاہم اپریل تک گزشتہ 9ماہ میں صرف یہاں ایک ارب ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری آئی۔

اس کے مقابلے میں انڈونیشیا میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 29 ارب ڈالر رہا۔

2014 میں دہشتگردی کیخلاف شروع ہونے والے آپریشن کے بعد لوگوں کا اعتماد بحال ہوا ہے اور کاروبار میں بہتری آئی ہے، بڑے شہروں میں گاڑیوں کی فروخت اور شاپنگ مالز کی تعمیر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

منفی تاثر تبدیل ہونے میں وقت لگتا ہے

ایک وقت تھا جب پاکستان معاشی عدم استحکام کی جانب بڑھ رہا تھا، اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی تھی اور دہشتگرد اسلام آباد سے صرف 100 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود تھے۔

تاہم اب صورتحال تیزی سے بہتر ہورہی ہے، دہشتگردوں کو افغان سرحد کے قریب پہاڑی علاقوں تک دھکیل دیا گیا ہے اور پاکستان اسٹاک مارکیٹ 2016 میں ایشیا کا بہترین انڈیکس ہے۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے بیرونی سرمایہ کاری مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ہماری حقیقت تبدیل ہوچکی ہے تاہم بیرونی سرمایہ کاروں کو اس حقیقت کا احساس ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا۔

بیرونی سرمایہ کاروں کو اس بات کا بھی یقین دلانا ہوگا کہ پاکستان کے ہندوستان سمیت دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آرہی ہے۔

بہر حال غیر ملکی کمپنیوں کی پاکستان کی تیزی سے بڑھی ہوئی کنزیومر مارکیٹ میں تھوڑی بہت دلچسپی دکھائی دے رہی ہے۔

گاڑیاں بنانے والی کمپنی Renault-Nissan پاکستان میں اپنا پلانٹ لگانے پر غور کررہی ہے، اسی طرح سوزوکی پاکستان میں ایک اور فیکٹری پر 46 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔

نیدرلینڈ کی ڈیری کمپنی فرائس لینڈ کیمپینا انٹرنیشنل ہولڈنگ نے بھی مارچ میں پاکستانی کمپنی اینگرو فوڈز کے ساتھ 46 کروڑ ڈالر کے معاہدے کا اعلان کیا تھا۔

بیرونی سرمایہ کاری سے متعلق مثبت اشارے

ملکوں کی معاشی صورتحال کا تجزیہ کرنے والے امریکی ادارے آئی ایچ ایس میں ایشیا پیسیفک کنٹری رسک ریسرچ کے سربراہ عمر حامد کا کہنا ہے کہ رواں برس غیر ملکی کمپنیوں کی پاکستان میں دلچسپی بڑھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایچ ایس کے کلائنٹس پاکستان کے حوالے سے معاشی و سیاسی خطرات کا جائزہ مانگ رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ یہاں سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں۔

عمر نے کہا کہ پاکستان بڑی کنزیومر مارکیٹوں میں سے ایک ہے اور کئی غیر ملکی کمپنیوں کیلئے یہاں سرمایہ کاری کے حوالے سے مثبت اشارے موجود ہیں۔

پاکستان میں شرح سود 42 برس کی کم ترین سطح پر ہے، افراط زر تقریباً 3 فیصد پر ہے، کرنسی مستحکم ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری کی مد میں بھی چین پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والا ہے جس سے پاکستانی معیشت کو دوام حاصل ہوگا۔

وزیر اعظم نواز شریف بھی ستمبر میں آئی ایم ایف کے 6.7 ارب ڈالر کے مالیاتی تعاون پروگرام کو ختم کرنے کیلئے پر عزم ہیں تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں اوپر گئیں تو یہ اقدام خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

کراچی میں تاجروں کو امید ہے کہ ایم ایس سی آئی کی جانب سے پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری کے بعد بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا جو 2008 کے مالی بحران میں پھنسنے کے بعد چلے گئے تھے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہارون عسکری کہتے ہیں کہ 2008 میں جو ہوا دوبارہ نہیں ہوگا۔

علی سائیگل کے مطابق وہ سرمایہ کار جو بالاخر پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ یہاں آکر حیران رہ جاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی ایسا ملک نہیں دیکھا جس کی معیشت اتنی بڑی ہو اور وہ عالمی منظر نامے پر اس طرح نظر انداز ہو۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں