غربت کیسے ختم ہوتی ہے؟

27 جون 2016
دو جملوں میں ترقی کا درس دے کر ہاجراں کی طنزیہ مسکراہٹ اور گہری ہوگئی، اور طنز بھرے چہرے کی گردن ایک طرف کو لڑھک گئی۔
دو جملوں میں ترقی کا درس دے کر ہاجراں کی طنزیہ مسکراہٹ اور گہری ہوگئی، اور طنز بھرے چہرے کی گردن ایک طرف کو لڑھک گئی۔

رمو (رمضان) نے جھونپڑی کے کونے میں چارپائی پر پڑی بوڑھی ہاجراں کو اٹھا کر دوائی پلائی، دوائی پی کر بوڑھی ہاجراں اوہو ۔۔اوہو۔۔۔۔ کی آوازیں نکالتے ہوئے اپنی کھانسی زبردستی قابو کرنے لگی۔

ماں کو دوائی پلانے کے بعد رمو نے اپنی چھوٹی بہن شمو (شمع) کو آواز دی کہ آؤ باہر روڈ پر کھیلنے چلتے ہیں۔ رمو اور شمو نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور بھاگتے ہوئے جھونپڑ پٹی سے باہر نکل گئے۔

رمو اور شمو اپنی ماں ہاجراں کے ساتھ سپر ہائی وے پر ایک جھونپر پٹی میں رہتے تھے۔ جیسے ہی حکومت نے حیدرآباد کراچی موٹر وے کا اعلان کیا تو ان کی ساری جھونپڑ پٹی کو اکھاڑ دیا گیا اور وہ شہر میں حیدری کے پاس ایک خالی پلاٹ پر نئی جھگیاں بنا کر بیٹھ گئے۔

رمو اور شمو کے جانے کے بعد ماں نے کمو (کمال دین) کو آواز دی اوئے کمو، اٹھ کچھ کام دھندے کی کر، ایسے سوتا رہا تو کھائیں گے کیا؟ ہاجراں کی آواز پر کمو انگڑائی لیتا ہوا اٹھ بیٹھا اور رات کی رکھی باسی روٹی بچے ہوئے سالن سے منہ میں ٹھونس کر باہر نکل گیا۔

جھونپڑی سے نکل کر وہ سیدھا حیدری مارکیٹ کے قریب اخبار کے ٹھیے پر پہنچا اور اپنے اخبار کا بنڈل اٹھایا، اور سیدھا پان کا کھوکھا کھولتے ہوئے نورے کے پاس آ گیا۔ نورے نے ایک آنکھ گھما کر کمو کو دیکھا اور کہا، اوئے آج اتنا جلدی آ گیا۔

کمو نے افسردگی سے جواب دیا، "یار نورے آج اماں کی کھانسی کی دوائی ختم ہو رہی ہے۔ اماں کو ہر وقت کھانسی کے دورے پڑتے رہتے ہیں۔ جلدی کچھ بکری ہو جائے تو اماں کی دوائی لے کے جاؤں۔ اچھا تو ایسا کر مجھے جلدی جلدی کچھ خبریں پڑھ کے سنا تاکہ میں اخبار کا ہانکہ لگا سکوں۔

پڑھیے: اسحاق ڈار کا بجٹ اور ماں کی دوا!

کمو کو پڑھنا نہیں آتا تھا تو نورا پان والا خبریں پڑھ کے کمو کو بتاتا، اور پھر کمو 4K کی بس میں سوار ہو کر حیدری سے بورڈ آفس، گولیمار، گرومندر، پھر صدر اور ٹاور تک بسوں میں چیخ چیخ کر چٹپٹی خبریں سنا سنا کر اخبار بیچتا۔

نورے نے اخبار الٹ پلٹ کر دیکھا اور کہا دیکھ بیٹے کمو، آج بڑی چٹپٹی خبر ہے پچھلے صفحے پر۔ غریب بڑھ گئے، غربت میں اضافہ ہو گیا۔

بھائی کمو یہ حکومت کی پاکستان میں غربت سے متعلق سروے رپورٹ ہے، جس میں لکھا ہے کہ پاکستان کی ایک تہائی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔

نورا خبر پڑھ کر اداس ہو گیا، "یار کمو ہم بھی ان ہی میں سے ہیں۔ یا شاید ہمارا ذکر غربت کی ان خبروں میں ہے ہی نہیں۔ ہم ان سے بھی نیچے ہیں۔ کمو نے بھی بے دلی سے اخبار کا بنڈل اٹھایا، اور 4K کی بس میں چڑھ کر آواز لگانے لگا، غربت نے ڈیرے ڈال دیے، غریب بڑھ گئے۔ آج کی گرما گرم خبر۔ غربت نے ڈیرے ڈال دیے، غریب بڑھ گئے، صرف 10 روپے میں۔

ادھر رمو شمو کا ہاتھ پکڑے جیسے ہی حیدری کی سڑک پر آیا تو دیکھا کہ وہاں دیو ہیکل کرینیں روڈ کے بیچ میں لگا گرین بیلٹ توڑ رہی ہیں۔ سریوں اور کنکریٹ سے پلر بنائے جارہے ہیں۔ شمو اور رمو وہیں مشین کو دیکھنے لگے۔

بیٹھے بیٹھے رمو نے شمو سے کہا، شمو پتہ ہے یہ کیا ہو رہا ہے، شہر میں گاڑیاں بڑھ گئی ہیں تو حکومت ایک اور روڈ بنا رہی ہے۔ لگتا ہے اب ہر غریب کے پاس بھی گاڑی ہوگی۔ جب ہمارے پاس ہوگی نا تو ہم گاڑی لے کے کلفٹن کے جھولے جھولنے جائیں گے۔ سمندر کے کنارے پہنچ کر سمندر میں نہائیں گے، اور ایک ایک کانٹا لگا کر سمندر کے کنارے بیٹھ جائیں گے، اور سالن کے لیے سمندر سے مچھلیاں پکر کر لائیں گے۔

اور پتہ ہے شمو، امی کہتی ہیں مچھلی میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ہم امی کو کھلائیں گے تو امی کی کمزوری ختم ہو جائے گی اور انہیں چارپائی سے اٹھنے میں تکلیف بھی نہیں ہوگی۔ یہی خواب بنتے بنتے انہیں دوپہر ہو گئی اور وہ واپس اپنی جھونپڑیوں کی طرف لوٹے۔

پڑھیے: 6 کروڑ غریبوں کے ٹیکس چور سیاستدان

گھر پہنچ کر رمو اور شمو بیمار ماں کی چارپائی کے قریب بیٹھ گئے، اور کہنے لگے اماں تو فکر نہ کر حکومت نئے روڈ بنا رہی ہے، گاڑیاں بڑھ رہی ہیں نا، اماں ہمارے پاس بھی جب گاڑی آئے گی نا تو ہم تجھے ہسپتال لے جائیں گے، تیرا علاج کروائیں گے، پھر تو ایسے کھانس کھانس کر ماند بھی نہیں پڑے گی اماں، پھر ہم سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر تجھے کھلائیں گے۔ پھر تو ٹھیک ہوجائے گی۔

ننھے رمو اور شمو کی بات سن کر کھانستی ہوئی ہاجراں نے چہرے پر ایک طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا، "میرے بچو، یہ سڑکیں تو سب کالی اور دھندلی لکیریں ہیں جو ہم غریبوں کی قسمت کی طرح تاریک ہیں، جنہیں ہر دوسرا شخص اپنی امارت کے نشے میں روندتا ہوا چلا جاتا ہے۔ بیٹے ہر غریب کے گاڑی خریدنے سے غربت ختم نہیں ہوتی نہ ترقی ہوتی ہے، ترقی تو تب ہوتی ہے جب امیر لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں غریبوں کے ساتھ سفر کر تے ہیں۔

دو جملوں میں بچوں کو ترقی کا درس دے کر بوڑھی ہاجراں کی طنزیہ مسکراہٹ اور گہری ہوگئی، اور اس کے طنز بھرے چہرے کی گردن ایک طرف کو لڑھک گئی۔

رمو اور شمو کو ایسا لگا کہ اماں حکمرانوں کی عقل پر طنز کرتے کرتے سو ہی گئی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں