کیا فیس بک پر آپ کا کوئی جانشین ہے؟

اپ ڈیٹ 30 اگست 2017
ہمارے آن لائن اکاؤنٹس میں ایسی بہت سی معلومات ہو سکتی ہیں جن کی ہمارے بچوں اور گھر والوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے۔ — charnsitr / Shutterstock.com
ہمارے آن لائن اکاؤنٹس میں ایسی بہت سی معلومات ہو سکتی ہیں جن کی ہمارے بچوں اور گھر والوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے۔ — charnsitr / Shutterstock.com

انیس سالہ ارسلان کی ایکسیڈنٹ میں اچانک موت سے اس کے دوست اور رشتہ دار بہت افسردہ ہوئے اور ارسلان کے ساتھ اپنی یادیں، تصاویر اور ویڈیوز ارسلان کی فیس بک وال پر شیئر کرنے لگے۔

انہیں دیکھ کر ارسلان کی والدہ نے سوچا کہ ارسلان کا فیس بک اکاؤنٹ بند کر دینا چاہیے، مگر ارسلان کے فیس بک کا پاسورڈ نا ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نا کرسکیں۔

فیس بک انتظامیہ سے رابطہ کرنے پر انہیں بتایا گیا کہ کسی اکاؤنٹ ہولڈر کی موت کی صورت میں اس کا پاسورڈ کسی سے بھی شیئر نہیں کیا جاتا۔ البتہ اکاؤنٹ ہولڈر کی وفات کی صورت میں ثبوت مہیا کرنے اور درخواست کرنے پر مرحوم کے اکاؤنٹ کو یادگار کے طور پر محفوظ کیا جاسکتا ہے، جہاں اس کے دوست، مرحوم کے ساتھ اپنی یادیں، تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرسکتے ہیں۔

پاکستان میں رہتے ہوئے ہم ڈیجیٹل اثاثوں یا آن لائن اکاؤنٹس تو دور، بینک اکاؤنٹس اور دیگر اثاثوں کے بارے میں بھی وصیت نہیں کرتے جس کی وجہ سے اچانک موت کی صورت میں لواحقین مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو خاندانوں میں دوریاں پڑ جاتی ہیں۔

پڑھیے: فیس بک پر 'وارث' منتخب کرنے کا آپشن

ہم ڈیجیٹل اثاثوں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں مگر ٹیکنالوجی میں جدت اور پیشرفت کے باوجود ابھی تک ہم اپنے ڈیجیٹل اثاثوں یا آن لائن اکاؤنٹس کی وصیت کی اہمیت سے واقف نہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں اب جائیداد کے اثاثوں کے علاوہ ڈیجیٹل اثاثوں کی وصیت بھی لکھی جانے لگی ہے اور اثاثوں کی وصیت کرنے والی قانونی فرمز کی طرز پر ڈیجیٹل اثاثوں کی وصیت کرنے والی فرمز بھی کام کر رہی ہیں، جو کہ اپنے کلائنٹس کی زندگی میں ہی ان کے فیس بُک اور ٹویٹر اکاؤنٹس کے علاوہ آن لائن بینکنگ، ای میل اکاؤنٹس اور دیگر اکاؤنٹس کے بارے میں بھی وصیت تیار کرتی ہیں۔

یہ کمپنیاں اپنی کلائنٹس کی وصیت کے مطابق لواحقین کو مرحوم کے ڈیجیٹل اثاثے یا اکاؤنٹس کچھ عرصے یا ہمیشہ کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کرتی ہیں، یہاں تک کہ یہ فرمز اپنے کلائنٹس کی وصیت کے مطابق موصول ہونے والے پیغامات اور پوسٹوں کے جوابات دینے کا اختیار بھی لواحقین کو دیتی ہیں۔

پہلے وفات پا جانے والے اکاؤنٹ ہولڈر کے لیے فیس بک یہ آپشن دیتا تھا کہ مرحوم کے لواحقین کی جانب سے ثبوت مہیا کرنے پر مرحوم کے اکاؤنٹ کو یادگار کے طور پر محفوظ کردیا جاتا تھا تاکہ مرحوم کے دوست احباب اپنی اپنی یاداشتیں شیئر کرسکیں۔

تاہم فیس بُک کی جانب سے 2015 میں ایک نیا فیچر "Legacy Contact" متعارف کروایا گیا، جس کے ذریعے اکاؤنٹ ہولڈر اپنی وفات کی صورت میں اپنا جانشین مقرر کر سکتا ہے۔ تاہم جانشین کو صرف یادگاری صفحے پر کوئی پیغام لکھنے، دوستی کی نئی درخواستیں قبول یا رد کرنے اور پروفائل اور کور فوٹو تبدیل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

مزید پڑھیے: 'خوشگوار زندگی کیلئے فیس بک بند کر دیں'

اگر دیکھا جائے تو یقیناً ہم بہت سارے ایسے لوگوں کے جانتے ہوں گے جو وفات پاگئے مگر ان کے فیس بُک یا ٹوئٹر اکاؤنٹس ابھی تک ہیں اور چونکہ ان کے پاس ورڈز کسی کے پاس نہیں ہوتے اور فیس بُک کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے فیچر سے لوگ ابھی آگاہ بھی نہیں، اس لیے کسی کی موت واقع ہونے کے بعد بھی لوگ اسے پیغامات بھیج سکتے ہیں، مگر ان کا کبھی بھی جواب موصول نہیں ہوتا۔

چونکہ فیس بک ایک ڈائری کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ کی آنے والی نسلیں اپنے والدین کی یادوں اور ان کی زندگی کے قیمتی لمحات جو انہوں نے فیس بُک پر بذریعہ تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیے تھے، وہ بالکل ویسے ہی دیکھ سکیں جس طرح ہم لوگ پرانے فوٹو البمز کھول کر دیکھا کرتے تھے، یا اپنے دادا دادی کی ڈائریاں اور خطوط کھول کر پڑھا کرتے تھے۔

مگر اس تیز تر زندگی میں ہم لوگ نہ جانے یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اپنی یادیں محفوظ کرنی چاہیئں۔

ہم تو اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ڈھیر ساری جائیدادیں چھوڑیں، مگر کبھی بھی ان کے لیے وصیت چھوڑنے کا اہتمام نہیں کرتے۔

ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی زندگی میں جائیداد کے حصے کیے بغیر وفات پا جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعد میں بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے۔ کیا ہم اپنی زندگی میں ہی یہ فیصلے کر کے نہیں جا سکتے تاکہ انہیں زندگی گزارنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نا کرنا پڑے۔

جانیے: فیس بک پر بہت زیادہ وقت بنا سکتا ہے آپ کی حالت قابل رحم

جائیداد کی وصیت چھوڑنے پر ہماری نسلیں بنا فیس بُک پروفائلز دیکھے ہی ہمیں یاد کرلیا کریں گی، اور کیونکہ آپس میں جھگڑے نہیں ہوا کریں گے، تو ساتھ مل کر بیٹھا تو کریں گی۔

اور اب کیونکہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا دور ہے، تو ہماری ای میلز اور ہمارے پیغامات میں کئی ایسی ضروری چیزیں ہو سکتی ہیں جن کی ہمارے بعد والوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے۔ یہ کسی قانونی مسئلے کی دستاویزات بھی ہوسکتی ہیں، تو کسی سرمایہ کاری کی تفصیلات بھی۔

تو کیا ہم یہی چاہتے ہیں کہ جس چیز پر ساری زندگی اتنی محنت کر رہے ہیں، ان کے پاسورڈ اپنے ساتھ لیے دنیا سے چلے جائیں؟

پاکستان میں ابھی ڈیجیٹل اثاثوں کی وصیت لکھنے والے فرمز تو نہیں مگر ہم خود اپنے پاسورڈز گھر والوں کے ساتھ شیئر کرکے ان اثاثوں کے غلط استعمال سے بچ سکتے ہیں۔ کیا یہ چھوٹا سا کام کرنا بہت مشکل ہے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں