موئن جو دڑو کی تہذیب دنیا کی چند عظیم الشان تہذیبوں میں شامل ہے۔ سیاح اس تہذیب کے آثار دیکھنے کیلئے موہن جو دڑو پہنچ گئے ۔

یونیسکو نے 1980 کے عشرے میں ان آثار کو عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ فن تعمیر اور شہری منصوبہ بندی کی اس انوکھی مثال کا کبھی جامع سروے بھی نہیں کیا گیا جس سے اندازہ ہوسکے کہ یہ شہر کتنے میل پر پھیلا ہوا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بمشکل دس فیصد حصے کی کھدائی کی گئی ہے۔ لہٰذا تاریخ کے کئی خزانے ابھی تک زمین میں مدفون ہیں.

وقفے وقفے سے موئن جو دڑو کا دورہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے ہر بار انہیں زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ زیر زمین آبی نمکیات اینٹوں کو کھا رہی ہیں۔ جو کھدائی سے پہلے مضبوط اور صیحح سلامت تھیں۔ ان دیواروں کو لکڑی کے پشتوں کے ذریعے کھڑا کیا ہوا ہے۔ جو کہ زیادہ دن تک نہیں چل سکتے،شہر کے اوپر کے حصے میں دیواریں گر چکی ہیں دیگر دیواریں گرنے کے دہانے پر ہیں۔

موئن جو دڑو کی تعمیر اور ترقی نہ صرف اس قدیم ورثہ کو زندہ رکھ سکتی ہے بلکہ ساتھ ہی سیاحوں کی بڑی تعداد آنے سے نہ صرف لوگوں کو تفریح کے مواقع ملے گے بلکہ محکمہ ثقافت کو بھرپور آمدنی بھی ہو گی۔۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں