کراچی: انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور سابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف دہشت گردوں کے علاج اور پناہ دینے سے متعلق کیس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنماؤں وسیم اختر اور رؤف صدیقی، پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما قادر پٹیل کی ضمانت میں توثیق مسترد کردی۔

درخواست ضمانت مسترد ہونے پر وسیم اختر، رؤف صدیقی اور انیس قائم خانی کو باقاعدہ طور پر گرفتار کرکے انھیں کراچی سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا جبکہ قادر پٹیل انسداد دہشت گردی عدالت سے خاموشی سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق پولیس اہلکاروں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ قادر پٹیل کی ضمانت مسترد ہوچکی ہے، لہذا فیصلے کا علم ہوتے ہی قادر پٹیل کمرہ عدالت سے فرار ہوگئے، تاہم ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل فرار نہیں ہوئے، وہ کسی ضروری کام سے باہر گئے اور خود ہی پولیس کے سامنے گرفتاری دیں گے۔

قادر پٹیل کے عدالت سے فرار ہونے کی خبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد انھوں نے میڈیا سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ خود گرفتاری دینے کیلئے بوٹ بیسن تھانے جائیں گے۔

قادر پٹیل گرفتاری ست قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے— فوٹو: ڈان نیوز.
قادر پٹیل گرفتاری ست قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے— فوٹو: ڈان نیوز.

اس کے بعد قادر پٹیل بوٹ بیسن تھانے پہنچے اور گرفتاری سے قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میں عدالت سے فرار نہیں ہوا تھا، بلکہ میں کمرہ عدالت میں داخل بھی نہیں ہوسکے تھے کیونکہ جب میں پہنچا تو کمرہ عدالت کا دروازہ بند ہوچکا تھا اور میں کافی دیر باہر کھڑا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ان کے دوستوں نے بتایا کہ ان کی عبوری ضمانت مسترد کردی گئی ہے تو اور انھیں اس حوالے سے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تو وہ عدالت سے چلے گئے، لیکن جب وہ ایک دوست کے گھر پہنچے اور وہاں نیوز چینلز پر ان کی گرفتاری کے احکامات کے حوالے سے خبریں دیکھیں تو وہ خود گرفتاری کیلئے پیش ہوگئے۔

میڈیا سے بات چیت کے بعد انھوں نے بورٹ بیسن تھانے میں خود کو گرفتاری کیلئے پیش کردیا۔

واضح رہے کہ اس کیس کے سلسلے میں مرکزی ملزم ڈاکٹر عاصم حسین اور پاسبان کے سیکریٹری جنرل عثمان معظم پہلے ہی زیر حراست ہیں، جن کی ضمانت مسترد کی جاچکی ہے۔

مزید پڑھیں: ایچ ای سی چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین 'زیرِحراست'

ایم کیو ایم رہنما وسیم اختر انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت کے موقع پر—۔ڈان نیوز
ایم کیو ایم رہنما وسیم اختر انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت کے موقع پر—۔ڈان نیوز

ڈاکٹر عاصم حسین کو گذشتہ برس 26 اگست کو کرپشن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات کے تحت اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔

27 اگست کو رینجرز نے انھیں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے 90 روز کا ریمانڈ حاصل کیا تھا، جس کے بعد ان کے ریمانڈ میں اضافہ کیا جاتا رہا اور بعدازاں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بھی ان سے کرپشن کے الزامات کے تحت تفتیش کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں :رینجرز، پولیس کے بعد ڈاکٹر عاصم سے نیب کی تفتیش

ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف کرپشن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات پر کراچی کے نارتھ ناظم آباد تھانے میں انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔

پاسبان پاکستان کے سیکریٹری جنرل عثمان معظم کو رینجرز نے گذشتہ برس 20 جولائی کو حراست میں لیا تھا، جس کے ایک ماہ بعد 28 اگست کو انہیں عدالت میں پیش کیا گیا. رینجرز نے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کا 90 روز کا ریمانڈ لیا جس کے بعد 28 نومبر کو ان کو پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا.

عثمان معظم اس وقت پولیس کی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت اور کالعدم تنظیم سے روابط کے الزامات میں تحقیقات جاری ہیں۔

ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ایک اور ملزم سلیم شہزاد بیرون ملک ہیں اور انھوں نے ابھی تک ضمانت بھی حاصل نہیں کی، جنھیں مفرور قرار دیا جاچکا ہے۔

پولیس کی رپورٹ : 'ڈاکٹرعاصم کے خلاف دہشتگردی کے ثبوت نہیں ملے‘

خیال رہے لندن میں مقیم سلیم شہزاد ایم کیو ایم کے سابق مرکزی رہنما رہے ہیں. مارچ 2014 میں انہوں نے اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا تھا کہ ایم کیو ایم میں متعدد ایسے عناصر موجود ہیں جو کراچی میں بھتہ خوری، قتلِ عام اور اسمگلنگ جیسے واقعات میں ملوث ہیں.

ایم کیو ایم نے اسی روز ان کی پارٹی رکنیت معطل کر دی اور وہ بھی تک بحال نہیں ہوسکے. انہوں نے 15 اکتوبر 2015 کو ایک بیان جاری کیا تھا کہ وہ سیاست چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ڈاکٹر عاصم کیس: وسیم اختر کے وارنٹ گرفتاری جاری

دوسری جانب 4 ملزمان ایم کیو ایم کے وسیم اختر اور رؤف صدیقی، پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے ضمانت قبل از گرفتاری لے رکھی تھی، جس میں توسیع کے لیے انھوں نے درخواست جمع کروائی تھی۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف کا موقف سن کر فیصلہ سناتے ہوئے چاروں ملزمان کی ضمانت میں توسیع مسترد کردی اور ان کے جیل وارنٹ جاری کردیئے۔

جس کے بعد وسیم اختر، رؤف صدیقی اور انیس قائم خانی کو باقاعدہ طور پر گرفتار کرلیا گیا جبکہ قادر پٹیل عدالت سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

ڈان نیوز کے مطابق تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ قادر پٹیل کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا جائے گا۔

عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت اگلے ماہ 3 اگست تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ ملزمان کو ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج

خیال رہے کہ ضیا الدین ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر یوسف ستار نے یکم دسمبر کو دفعہ 164 کے تحت بیان قلمبند کراتے ہوئے ڈاکٹر عاصم پر لگائے گئے الزامات اور 28 دہشت گردوں کو طبی امداد فراہم کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

ڈاکٹر یوسف ستار نے اپنے اعترافی بیان میں ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف درج ایف آئی آر میں تمام مندرجات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر، رؤف صدیقی، انیس قائم خانی، سیلم شہزاد اور پیپلزپارٹی کے قادر پٹیل کی ایما پر دہشت گردوں کو سہولیات فراہم کی گئیں۔

ڈاکٹر عاصم حسین کون ہیں؟

ڈاکٹر عاصم حسین، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی ہیں اور ان کی گرفتاری کو کراچی میں جاری آپریشن کے دوران پیپلز پارٹی قیادت کے خلاف پہلا بڑا ایکشن قرار دیا گیا۔

ڈاکٹر عاصم حسین 2009 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ سے سینیٹر منتخب ہوئے، انھوں نے 2012 تک وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور وزیراعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم کے فرائض انجام دیئے۔

2012 میں وہ سینیٹ سے اس وقت مستعفی ہو گئے تھے جب سپریم کورٹ نے دہری شہریت پر اراکین پارلیمان کو نا اہل قرار دیا تھا، ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کینیڈا کی بھی شہریت تھی۔

پیپلز پارٹی نے 2013 کے عام انتخابات کے بعد انھیں سندھ کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں