کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت اور ملک کے اہم تجارتی مرکز کراچی کی شاہراہوں پر موجود کچرے کے ڈھیر کو ہٹانے کیلئے وزیراعلیٰ سندھ کے دیئے گئے تین روزہ الٹی میٹم کے اختتام کے باوجود احکامات پر عملدرآمد کا آغاز نہ ہوسکا، شہریوں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نظام کی غیر موجودگی میں شہر کو کچرے سے پاک نہیں کیا جاسکتا۔

وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے رواں ہفتے کے آغاز میں مقامی انتظامیہ کو شہر میں لگے کچرے کے ڈھیر ختم کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کیلئے انتظامیہ کو 3 دن کا الٹی میٹم بھی دیا گیا۔

تاہم مقامی انتظامیہ نے وزیراعلیٰ کی ہدایات کو نظر انداز کردیا، جس کے بعد شہر میں جابجا کچرے کے ڈھیر دیکھے جاسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے دی جانے والی مہلت گذشتہ روز ختم ہوچکی ہے، تاہم عوام کی پریشانی کا حل ممکن نہیں ہوسکا۔

ادھر شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں سے بیزار اور پریشان کراچی کے شہریوں نے مقامی انتظامیہ کی جانب سے وزیراعلیٰ کی حکم عدولی کو صوبائی حکومت کی ناکامی قرار دے دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر میں گذشتہ کچھ سالوں سے بلدیاتی نظام کی غیر موجودگی کی وجہ سے شہر کو کچرے سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے اور ان مسائل کو صوبائی انتظامیہ حل نہیں کرپائی ہے۔

عوام نے شہر میں بڑھتے ہوئے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بلدیاتی نظام کی غیر موجودگی میں صوبائی انتظامیہ نے شہر کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ ہی کیا ہے۔

یاد رہے کہ صوبہ سندھ میں گذشتہ 8 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے اور اسی دوران پہلے سے جاری بلدیاتی نظام کی مدت ختم ہوئی تھی جسے اب تک مکمل طور پر بحال نہیں کیا جاسکا ہے۔

عوام کا کہنا تھا کہ شہر کے مسائل، جن میں کچرا، نکاسی آب اور دیگر شامل ہیں، بلدیاتی نظام نہ ہونے کے باعث بری طرح متاثر ہورہے ہیں، شہریوں نے حکومت سے بلدیاتی نظام کی فوری بحالی کا مطالبہ بھی کیا۔

ڈان نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں کراچی کے مسائل سے واقف ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ کراچی میں یومیہ 15000 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے صرف 9000 سے 10000 ٹن کچرے کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے جبکہ باقی کچرا شہر کی سڑکوں، شاہراہوں، چوراہوں اور گلیوں میں ہی پڑا رہتا ہے اور شہریوں کی زندگی اور ان کی صحت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کچرے کوٹھکانے نہ لگانے سے شہر میں سانس سمیت متعدد موذی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں