کراچی: سپریم کورٹ آپ پاکستان نے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کی جانب سے الاٹ کی گئی زمین پر بحریہ ٹاؤن کو کسی بھی طرح کی تعمیراتی سرگرمیوں سے روک دیا اور قومی احتساب بیوو (نیب) کو ہدایت کی ہے کہ وہ دو ماہ میں معاملے کی تحقیقات مکمل کرے۔

ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو غیر قانونی طور پر سرکاری زمین الاٹ کرنے کا الزام ہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے ایم ڈٰی اے کی جانب سے 43 دیہہ کی سرکاری زمین کو غیر قانونی طریقے سے الاٹ کرنے اور ان کی ایڈجسٹمنٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن اراضی:تحقیقات کی تکمیل کا حکم

اس تنازع میں وہ زمین بھی شامل ہے جس پر ٹول پلازہ سے نو کلو میٹر دور کراچی حیدرآباد سپر ہائی وے پر بحریہ ٹاؤن کا منصوبہ زیر تعمیر ہے۔

نیب کے پروسیکیوٹر جنرل نے اس حوالے سے عبوری رپورٹ بر مہر لفاظے میں پیش کی جس کے ساتھ وزارت دفاع کے ڈائریکٹوریٹ آف سروے آف پاکستان کی جانب کیے جانے والے سروے کی رپورٹ کی نقل بھی منسلک تھی، عدالت نے دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا۔

سروے رپورٹ کے مطابق ایم ڈی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کی جانے والی زمین کا کل رقبہ 9 ہزار 385.185 ایکڑ ہے۔

رپورٹ میں گلابی رنگ سے نشاندہی کیے گئے حصے کو 'اے' کا نام دیا گیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن 386.276 ایکڑ رقبے پر تعمیرات مکمل کرچکی ہے جس کا ریکارڈ ایم ڈی کی جانب سے منظم نہیں کیا گیا۔

سروے رپورٹ میں زمین کے ان حصوں کو بھی دکھایا گیا جن کا ریکارڈ سازی کا کام ایم ڈی اے کی جانب مکمل نہ ہونے کے باوجود بحریہ ٹاؤن نے اس زمین پر تعمیرات کیں۔

وہ زمیں جس کی ریکارڈ سازی کا کام ایم ڈی اے کی جانب سے مکمل نہیں ہوا اور اس پر تعمیراتی کام مکمل ہوگیا یا زیر تکمیل ہے اس کا مجموعہ رقبہ 2 ہزار 771.79 ایکڑ بنتا ہے۔

بنچ نے چیف سیکریٹری ، بورڈ آف ریوینیو کے سینئر رکن اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ وہ عدالت کو مطمئن کریں کہ کس قانون کے تحت ایم ڈی اے کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اس نے پرائیوٹ لینڈ کو اس سرکاری زمین میں منتقل کردیا جو راہداری کیلئے مختص تھی۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی: لالچ اور قبضے کا لامحدود سلسلہ

مذکورہ تینوں عہدے دار اس سوال کا اطمینان بخش جواب نہ دے سکے تاہم انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایم ڈی اے کے پاس ایسے کوئی اختیارات نہیں جن کے تحت وہ پرائیوٹ لینڈ کو سرکاری زمین سے ایکسچینج یا الاٹمنٹ کرسکے۔

بنچ نے کہا کہ یہ بات بھی ریکارڈز میں سامنے آئی ہے جن زمین کا مقدمہ چل رہا ہے اس کا کوئی بھی حصہ حکومت سندھ کی جانب سے 1894 کے کولونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈز ایکٹ کے سیکشن 10(4) کے تحت ایم ڈی اے کو کبھی الاٹ نہیں کیا گیا۔

بنچ نے بحریہ ٹاؤن کو سروے رپورٹ میں نشاندہی کی گئی زمین پر کسی بھی قسم کی تعمیرات نہ کرنے کا حکم دیا۔

ساتھ ہی ایم ڈی اے کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پرائیوٹ لینڈ کا مزید کوئی حصہ بحریہ ٹاؤن یا کسی اور نجی کمپنی کو الاٹ نہ کرے۔

سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے بورڈ آف ریوینیو کو ہدایت کی کہ وہ ایم ڈی اے یا اس مقدمے میں کسی بھی حوالے سے شامل اتھارٹیز سے زمینوں کی لین دین سے نہ کرے۔

بنچ نے حکم جاری کیا کہ 'نشاندہی کی گئی زمینوں پر مزید ترقیاتی و تعمیراتی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے نیب حکام کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو سروے رپورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے زیر قبضہ دکھائی گئی تمام زمین کا گوگل ارتھ کے ذریعے نقشہ اور تصاویر حاصل کریں اور عدالت میں پیش کریں۔'

علاوہ ازیں بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض حسین کا دعویٰ ہے کہ سپریم کورٹ نے ان کے کسی بھی پروجیکٹ میں تعمیرات پر پابندی عائد نہیں کی۔

ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ میڈٰیا کی جانب سے حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا اور بحریہ ٹاؤن پروجیکٹ پر کام جاری رکھے گا۔

ملک ریاض کا مزید کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے حوالے سے میڈیا نے حقائق غلط طریقے سے پیش کیے، سپریم کورٹ نے تعمیرات پر پابندی عائد نہیں کی، بحریہ ٹاؤن کراچی میں 9 ہزار 385 ایکڑ کے رقبے پر تعمیراتی کام اور دیگر سرگرمیاں جاری رکھے گا۔

ملک ریاض کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں روز اول سے اس طرح کی مافیا کا سامنا ہے۔

یہ خبر 2 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (1) بند ہیں

Khan Aug 02, 2016 06:19pm
السلام علیکم بیشتر اخبارات نے اس خبر کو نہیں لگایا، افسوس۔ خیرخواہ