ملازمت پیشہ خواتین پر چاقو سےحملہ کرنے والا گرفتار

اپ ڈیٹ 12 اگست 2016
پولیس کی جانب سے جاری کیا گیا مبینہ حملہ آور کا خاکہ—۔فوٹو/ حسیب بھٹی
پولیس کی جانب سے جاری کیا گیا مبینہ حملہ آور کا خاکہ—۔فوٹو/ حسیب بھٹی

راولپنڈی: صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں ملازمت پیشہ خواتین پر چاقو سے حملہ کرنے والے ایک مبینہ حملہ آور کو پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے کومبنگ آپریشن کے دوران 4 ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق 24 سالہ محمد علی نے مبینہ طور پر 17 خواتین پر حملہ کیا، جن میں سے ایک خاتون زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوگئیں۔

پولیس کے مطابق مذکورہ شخص کا ذہنی توازن درست نہیں۔

ذرائع کے مطابق محمد علی کے 4 ساتھیوں کی شناخت سراج، اسد احمد، افسر مسیح اور الیاس کے نام سے کی گئی، جو اس سے قبل اڈیالہ جیل میں سزا بھی کاٹ چکے ہیں۔

ویڈیو دیکھیں:راولپنڈی میں چھرا گروپ کی دہشت

پولیس ذرائع کے مطابق مذکورہ ملزمان فلموں سے متاثر تھے اور علاقے میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے 'تفریح' کے طور پر خواتین پر حملہ کرتے تھے۔

ذرائع کے مطابق محمد علی مبینہ طور پر لوڈ شیڈنگ کے اوقات میں ملازمت کرنے والی خواتین پر چاقو سے حملہ کرتا تھا جبکہ اس کے ساتھی اس کی مدد کرتے تھے۔

اتوار کی رات محمد علی نے مورگاہ میں ایک گھنٹے کے اندر اندر فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال کی ایک نرس کو چاقو سے حملہ کرکے ہلاک جبکہ 2 کو زخمی کردیا تھا۔

مزید پڑھیں:تنہا باہر نکلنے والی خواتین پر حملے

پولیس ذرائع کے مطابق مذکورہ پانچوں ملزمان کو ریمانڈ کے لیے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

اس سے قبل بھی پنجاب کے مختلف علاقوں میں خواتین پر چاقو سے حملوں کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

اکتوبر 2013 میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کے ضلع ساہیوال میں ایک نوجوان نے ایک مہینے میں کم از کم 25 خواتین کو چاقو کے وار سے زخمی کیا۔

ضلعی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ 'زیادہ تر واقعات سورج غروب ہونے کے بعد پیش آئے، لیکن کچھ طالبات پر اسکول سے واپسی پر بھی حملے کیے گئے'۔

یہ بھی پڑھیں: چیچہ وطنی: خواتین پر چاقو سے حملوں کی پچیس وارداتیں

دوسری جانب گذشتہ برس بھی پنجاب کے شہر ساہیوال میں عوامی مقامات پر 'آزادانہ گھومنے والی' خواتین پر اسی طرح چاقو سے حملہ کرکے انھیں زخمی کیا گیا تھا۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی سرگرم کارکنوں کا ساہیوال حملوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ حملے خواتین کی آزادی کو مزید محدود کررہے ہیں، جو سماجی اور ثقافتی پابندیوں کے باعث پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں