اسلام آباد: مالی معاملات کے مرکزی فورم قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کا گزشتہ 16 ماہ سے کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوسکا تاہم کمیشن میں جلد ہی بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ متوقع ہے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت توقع کررہی ہے کہ حال ہی میں مراد علی شاہ کے وزیراعلیٰ سندھ بننے کے بعد قومی مالیاتی کمیشن میں بڑے پیمانے پر ردوبدل ہوگا۔

ڈان کو وزارت خزانہ کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ وفاقی حکومت آئندہ این ایف سی اجلاس کے لیے پنجاب سے شعبہ جاتی اسٹڈی کا بھی انتظار کررہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی مالیاتی کمیشن پارلیمنٹ میں ششماہی رپورٹ جمع کروا رہا تھا جبکہ اسے ایک اجلاس بلوانا تھا تاکہ 30 جون کو اختتام پذیر ہونے والے سیشن کی رپورٹ کی منظوری دی جاسکے۔

مذکورہ عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ 'اس میں کوئی قانونی یا آئینی مسئلہ نہیں ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: نویں قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل

آئین کے آرٹیکل 160(3بی) کے تحت 'وفاقی اور صوبائی وزیر خزانہ این ایف سی ایوارڈ کے نفاذ کی ششماہی نگرانی کریں گے اور اپنی رپورٹ قومی اور صوبائی اسمبلی میں جمع کروائیں گے'۔

ایک سابق وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پہلے پہل این ایف سی ایوارڈ کے تحت وسائل کی تقسیم کا جائزہ لینے اور قومی اسمبلی سے اس رپورٹ کی منظوری کے لیے سال میں 2 بار این ایف سی کا اجلاس منعقد کیا جاتا تھا لیکن موجود حکومت نے این ایف سی اجلاس کا سلسلہ روک دیا۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ ، صوبائی وزیر خزانہ کی اضافی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔

سندھ حکومت کے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ کے قومی مالیاتی کمیشن سے جڑے رہنے میں کوئی قانونی یا آئینی رکاوٹ نہیں ہے تاہم چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اسد علی شاہ کو وزیراعلیٰ کا مشیر برائے خزانہ مقرر کیے جانے کی تجویز زیر غور ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اسد علی شاہ ماضی میں کئی بار اس پیشکش کو ٹھکرا چکے ہیں، ہوسکتا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کو نامناسب طریقے سے برطرف کرنے کے بعد وہ اس بار بھی ایسا ہی کریں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مراد علی شاہ چاک و چوبند شخصیت کے مالک ہیں، یہ کسی اور کے لیے ناممکن ہوگا ہے کہ وہ 2 اہم عہدوں یعنی وزیر خزانہ اور فل ٹائم جاب وزیراعلیٰ جیسے اہم منصب کے ساتھ انصاف کرسکے۔

سابق وفاقی وزیر خزانہ اور سندھ سے کمیشن کے پرائیوٹ رکن سلیم ایس مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت این ایف سی کے حوالے سے آئینی تقاضوں کی خلاف ورزی کررہی ہے، حکومت نے 2015 اپریل سے اب تک ایک بھی اجلاس منعقد نہیں کروایا اور این ایف سی ایوارڈ میں توسیع کرکے بین الصوبائی مالی معاملات کے امور کی جانب دیکھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی توسیع کے بعد اس کے نفاذ کی رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کردینا ہی کافی ہے، لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟

ایک سوال کے جواب میں سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ یہ بہتر ہوگا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صوبائی وزیر خزانہ کے عہدے پر بھی فائز رہیں، لیکن ہوسکتا ہے کہ کسی نئے شخص کو این ایف سی میں سندھ کی نمائندگی کرنے اور مالی معاملات کو سبنھالنے کے اختیارات دے دیئے جائیں۔

بلوچستان سے پرائیویٹ ممبر ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ موجودہ حکومت کی ترجیح نہیں ہے، جب سے وہ بلوچستان سے کمیشن کے پرائیوٹ رکن بنے ہیں انہیں اب تک کمیشن کی کوئی ششماہی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔

سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا نے حیرت انگیز طور پر گزشتہ سال اپنی رپورٹ جمع کروادی تھی اور اب پنچاب کی رپورٹ کا انتظار کیا جارہا ہے۔

پنجاب سے پرائیوٹ ممبر ڈاکٹر عائشہ کو صوبائی وزیر خزانہ کے عہدے پر ترقی دے گئی تھی جبکہ صوبائی حکومت نے ان کی جگہ نئے ممبر کو مقرر کرنے میں 6 ماہ سے زائد کا عرصہ لگایا۔

دوسری جانب وزارت خزانہ نے اعتراف کیا کہ 2015 سے این ایف سی کا اجلاس طلب نہیں کیا گیا لیکن پارلیمنٹ میں اس کی ششماہی رپورٹ باقاعدگی سے پیش کی جارہی ہے۔

یہ خبر 17 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں