• KHI: Partly Cloudy 18.7°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.3°C
  • KHI: Partly Cloudy 18.7°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.3°C

امریکا پاکستان کی فوجی امداد بند کرے، براہمداغ بگٹی

شائع August 28, 2016

واشنگٹن: بلوچ علیحدگی پسند رہنما براہمداغ بگٹی نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی فوجی امداد بند کردے اور امید ظاہر کی ہے کہ آنے والی نئی حکومت اوباما انتظامیہ کے برعکس بلوچوں کے مطالبات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے گی۔

واشنگٹن کے نیشنل پریس کلب میں نواب اکبر بگٹی کی برسی کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی سمیت دیگر مقررین نے خطاب کیا جبکہ براہمداغ بگٹی نے جنیوا سے وڈیو لنک کے ذریعے تقریر کی۔

یہ بھی پڑھیں:'بلوچستان میں مودی کے ایجنٹس کو ایک فیصد بھی حمایت حاصل نہیں'

براہمداغ بگٹی نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور حکومت پاکستان سے بلوچوں کے حقوق پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مشکل تو یہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت کسی فارمولے پر متفق ہوبھی جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگلی حکومت یا فوج اس معاہدے کا احترام کرے گی۔

پاکستانی صحافی کی جانب سے اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات پر زور دینے پر براہمداغ بگٹی غصے میں آگئے اور کہا کہ ’یہ سوال آپ ہم سے کیوں پوچھتے ہیں، پاکستانی حکومت اور فوج سے کیوں نہیں پوچھتے اور اگر آپ ان سے پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتے تو اس بات کا اعتراف کریں کہ آپ ڈرتے ہیں۔‘

مزید پڑھیں:بلوچستان کا تذکرہ:'سینئر بیوروکریٹس نے مودی کو خبردار کیا تھا'

براہمداغ بگٹی نے امید ظاہر کی کہ ہندوستان بلوچستان کے مسئلے کو کشمیر کے معاملے کو دبانے کیلئے استعمال نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر اور بلوچستان دو مختلف مسائل ہیں جن کا تاریخی پس منظر بھی جدا ہے۔

تقریب میں بڑی تعداد میں انڈین اور پاکستانی افراد کی موجودگی کی وجہ سے ایونٹ میں گرما گرمی بھی دیکھنے میں آئی۔

بعض ہندوستانی شہریوں نے امریکی محکمہ خارجہ کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کی علاقائی خودمختاری اور سالمیت کا احترام کرتا ہے اور بلوچستان کی آزادی کے حوالے سے مطالبات کی حمایت نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیں:بلوچستان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتے، امریکا

اس کے جواب میں تقریب میں موجود پاکستانیوں نے یک آواز ہوکر کہا کہ ’ہم کبھی اپنے ملک کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔‘

تقریب کے منتظمین نے سیمینار میں صحافیوں کے علاوہ کسی کو سوال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی لہٰذا پاکستانی اور انڈین شہریوں نے مقرریں کو چائے کے وقفے کے دوران گھیر لیا۔

حاضرین میں شامل ایک پاکستانی شہری نے حسین حقانی سے چائے کے وقفے پر پوچھا کہ ’آپ کس طرح پاکستان کے لیے امریکی فوجی امداد پر پابندی کا مطالبہ کرسکتے ہیں حالانکہ آپ تو خود ماضی قریب میں امریکا میں پاکستانی سفیر رہے ہیں۔‘

اس بات پر دونوں کے درمیان زبردست بحث شروع ہوگئی اور پھر وہاں موجود دیگر افراد بھی اس بحث میں شریک ہوگئے۔

قبل ازیں براہمداغ بگٹی نے اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں امید ہے امریکا میں آئندہ حکومت بلوچوں کے مطالبات کا احترام کرے گی اور پاکستان کی امداد معطل کردے گی۔

مزید پڑھیں:مودی کے متنازع بیان کی 'حمایت'، بلوچ رہنماؤں پر مقدمات

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی بلوچستان کے لوگوں کی ابتر حالت زار کو نظر انداز کرچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا میں روزانہ فضول باتوں پر بحث ہوتی ہے لیکن بلوچستان کے مسئلے پر کوئی بات نہیں کرتا، کسی کو ہماری فکر نہیں۔

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ بطور پاکستانی میں چاہتا ہوں کہ بلوچستان پاکستان کا ہی حصہ رہے لیکن اگر حکومت کی بھی یہی خواہش ہے تو انہیں بلوچوں کی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے۔

برطانوی اسکالر پیٹر ٹیچل نے مطالبہ کیا کہ عالمی امدادی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بلوچستان تک رسائی دی جائے۔

یہ خبر 28 اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai Aug 28, 2016 11:41pm
امریکی امداد بند کرنے کی مطالبے کی مذمت کرتے ھیں بگٹی کو ایسا بیان نہیں دینا چاہئے لیکن اسکے علاوہ جن باتوں کا براعمداح بگٹی زکر کیا ھے اس پر پاکستانی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو سنجیدگی سے عور کرنا چاہئے کیونکہ بگٹی نے بلوچ مسئلے کی سیاسی حل کی پیشکش کی ھے جو ایک مثبت بات ھے انہوں نے کشمیر اور بلوچستان کے مسئلہ کو الگ مانکر اپنے ملک کی موقف کی تائید کی ھے لیکن بات چیت کیلئے انہوں نے گارنٹی مانگی ھے اگر ایک بار بات چیت شروع ھوئی اور سیاسی لوگوں کو اس میں شامل کیا گیا تو ھوسکتا ھے کہ گارنٹی والا مطالبہ خود بخود حل ھوجائے ھم سمجھتے ھیں کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ھے اس کو سیاسی انداز میں سیاستدانوں کے ذریعے حل کیا جا سکتا ھے بلوچستان میں بلوچ لیڈروں کے ساتھ بات چیت شروع کرنا بھارت کی ہار ھوگی

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025