جی-20 اجلاس سے قبل عالمی موسمیاتی معاہدے کی توثیق

اپ ڈیٹ 03 ستمبر 2016
اوباما اور چین کے صدر شی جن پنگ نے پیرس معاہدے پر دستخط کرکے بان کی مون کے حوالے کردیا—فوٹو: اے ایف پی
اوباما اور چین کے صدر شی جن پنگ نے پیرس معاہدے پر دستخط کرکے بان کی مون کے حوالے کردیا—فوٹو: اے ایف پی

ہینگ ژو: چین میں دنیا کے بڑے معاشی ممالک کے گروپ جی ٹوئنٹی کے سربراہان مملکت اجلاس میں شرکت کے لیے امریکی صدر باراک اوباما سمیت دیگر عالمی رہنما ہینگ ژو پہنچ گئے جبکہ چین اور امریکا نے ماحولیا کے پیرس معاہدے کی توثیق کرنے کے بعد دستاویزات اقوام متحدہ کے سربراہ کے حوالے کردیں۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 3 سے 5 ستمبر تک جاری رہنے والی اس سمٹ میں عالمی معاشی صورتحال، دہشت گردی، ماحولیاتی آلودگی سمیت دیگر اہم امور زیر غور آئیں گے۔

اس موقع پر شہر بھر میں سیکیورٹی کے بھی سخت اقدامات کیے گئے ہیں، جبکہ فضا کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے فیکٹریاں بند کردی گئی ہیں۔

امریکی صدر اوباما ہینگ ژو پہجنچے کے بعد ایئرفورس ون سے اتر رہے ہیں—فوٹو/ اے پی
امریکی صدر اوباما ہینگ ژو پہجنچے کے بعد ایئرفورس ون سے اتر رہے ہیں—فوٹو/ اے پی

واضح رہے کہ چین میں آلودگی کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے اور کسی بھی بین الاقوامی اجلاس کے موقع پر آلودگی کو کم کرنے کیلئے فیکٹریاں اور کارخانے بند کردیے جاتے ہیں جبکہ بعض اوقات تو چھٹی کا بھی اعلان کردیا جاتا ہے تاکہ ٹریفک کا دبائو کم رہے۔

عالمی موسمیاتی معاہدے کی توثیق

چینی صدر شی جن پنگ اور امریکی صدر باراک اوباما نے پیرس معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے دستاویزات پر دستخط کے بعد اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون کے حوالے کردی۔

اوباما نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے معاہدے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اس صدی کے چیلنجز ڈرامائی طور پر دوسرے سے مختلف ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ تاریخ معاہدہ پیرس کو 'ایک اہم سنگ میل کے طورپر'ثابت کرے گی۔

زینگ ژو میں تقریب کے دوران انھوں نے کہا کہ 'بالآخر ہم نے اپنے سیارے کو بچانے کا فیصلہ کرلیا'۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے اس موقع پر کہا کہ ہم اس معاہدے کی پاسداری کے لیے خلوص کے ساتھ پابند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'امید ہے یہ معاہدہ دوسرے ممالک کو اسی طرح کے اقدامات اٹھانے میں حوصلہ افزا ہوگا'۔

چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے مطابق چین کے نیشنل پیپلز کانگریس نے پیرس معاہدے کی توثیق جی ٹوئنٹی اجلاس سے قبل کردی تھی جس کا باضابطہ اعلان چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے امریکی ہم منصب براک اوباما کے ہمراہ ایک تقریب کے دوران کی۔

چینی صدر شی جن جی ٹوئنٹی سے قبل بی 20 کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں—فوٹو/ اے ایف پی
چینی صدر شی جن جی ٹوئنٹی سے قبل بی 20 کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں—فوٹو/ اے ایف پی

امریکی صدر اوباما بھی عالمی موسمیاتی معاہدے کی توثیق کا اعلان کریں گے اور دنیا کو اس بات کا پیغام دیں گے کہ دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والے دو ممالک ماحول کو بہتر بنانے کیلئے پر عزم ہیں۔

گزشتہ برس دسمبر میں پیرس میں ہونے والے اجلاس میں 180 ممالک نے متفقہ طور پر عالمی موسمیاتی معاہدے کو حتمی شکل دی تھی اور جب کم سے کم 55 ممالک کی حکومتوں کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق کردی جائے گی تو 30 یوم کے اندر اس کا نفاذ عمل میں آجائے گا۔

دنیا میں مجموعی طور پر خارج ہونے والی ضرر رساں گیس کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ چین خارج کرتا ہے جبکہ امریکا دوسرے نمبر پر ہے۔

اب تک معاہدے پر دستخط کرنے والے 180 ممالک میں سے صرف 24 ملکوں کی حکومتوں نے اس کی توثیق کی ہے جن میں زیادہ تر چھوٹے جزائر شامل ہیں جنہیں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں خود کے ڈوب جانے کا خدشہ ہے حالانکہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے زیادہ ذمہ دار نہیں۔

پیرس معاہدے کے تحت چین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2030 تک کاربن کا اخراج 2005 کی سطح سے 60 سے 65 فیصد تک کم کردے گا اور توانائی کے قابل تجدید اور شفاف ذرائع کی شرح میں 20 فیصد تک اضافہ کرے گا۔

معاہدے کے تحت امریکا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2025 تک کاربن اخراج 2005 کی سطح سے 26 سے 28 فیصد تک کم کردے گا۔

پیرس معاہدے پر بحث کے دوران چین نے موقف اختیار کیا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی کیلئے ان ترقی یافتہ ممالک کو زیادہ حصہ ملانا چاہیے جنہوں نے صنعتی انقلاب سے اب تک دنیا کو سب سے زیادہ آلودہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچ رہا ہے جس کہ وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔

درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سطح سمندر بلند ہورہی ہے جس کی وجہ سے کئی جزائر کے سمندر میں ڈوب جانے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں،اس کے علاوہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسموں میں بھی شدت آتی جارہی ہے۔

جی ٹوئنٹی گروپ ان ممالک پر مشتمل ہے؛ آسٹریلیا، کینیڈا، سعودی عرب، امریکا، انڈیا، روس، جنوبی افریقا، ترکی، ارجنٹائن، برازیل، میکسیکو، فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ، چین، انڈونیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا۔


تبصرے (0) بند ہیں