• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات سست روی کا شکار

شائع September 8, 2016

اسلام آباد: اگست کے مہینے میں کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خود کش دھماکے کی تحقیقات سست روی کا شکار ہیں اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات میں معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔

وزیر داخلہ نے سینیٹ کو بتایا کہ جب بھی اس معاملے کی تحقیقات میں مثبت پیش رفت ہوگی پارلیمنٹ کو ضرور اس سے آگاہ کیا جائے گا۔

کوئٹہ، مردان اور پشاور میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے حوالے سے بحث سمیٹتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ 8 اگست کو سول ہسپتال کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے میں ملوث ہونے کے شبے میں تین افراد سے تفتیش کی گئی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اب بھی دھماکے کے سہولت کاروں کا سراغ لگانے میں مصروف ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ’ہم گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کررہے ہیں، ارکان پارلیمنٹ صبر و تحمل سے کام لیں اور ملک کی پروفیشنل انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کریں‘۔

یہ بھی پڑھیں:'سانحہ کوئٹہ کی ذمہ دار انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی'

وزیر داخلہ نے کہا کہ بائیو میٹرک شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ مردان اور پشاور کے وارسک کے علاقے میں حملہ کرنے والے غیر ملکی تھے۔

چوہدری نثار نے بعض سینیٹرز کی جانب سے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر تنقید پر بھی ناراضی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں اور اس سلسلے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

چوہدری نے نثار نے دعویٰ کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے لاہور کے واہگہ بارڈر، آرمی پبلک اسکول اور چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے حملوں کی پیشگی اطلاعات دی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس اطلاعات پر کیے جانے والے 20 ہزار سے زائد آپریشنز میں اب تک ہزاروں دہشت گرد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔

بحث میں حصہ لینے والے سینیٹر جن میں زیادہ تعداد حکومتی بنچوں پر بیٹھنے والوں کی تھی، انہوں نے گزشتہ ماہ ہونے والے کوئٹہ دھماکے کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیا اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے جامع تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔

سب سے زیادہ سخت تنقید پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ارکان سینیٹ کی جانب سے کی گئی جس کے جواب میں چوہدری نثار نے انہیں یاد دلایا کہ ان کی جماعت وفاق اور بلوچستان کی صوبائی حکومت میں شامل ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ اپنے تحفظات کا اظہار گورنر بلوچستان کے سامنے بھی جاکر کریں جن کا تعلق ان کی اپنی جماعت سے ہے۔

مزید پڑھیں:سانحہ کوئٹہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے اہم اجلاس

اس کے جواب میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے چوہدری نثار کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ہمیں غلام نہ سمجھا جائے، ساتھ ہی انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ ان کی جماعت وفاقی حکومت کا حصہ ہے۔

وزیر داخلہ نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ فوج تو نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے اپنا کام کررہی ہے لیکن سول حکومت اپنی پوری کوشش نہیں کررہی۔

انہوں نے کہا کہ سویلین حکومت اور ملٹری کے درمیان کوئی تفریق نہیں اور جو کوئی بھی یہ تفریق پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے وہ ملک کا خیر خواہ نہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے سول اور ملٹری قیادت میں مکمل ہم آہنگی موجود ہے۔

چوہدری نثار سے قبل سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کو سراہا۔

قبل ازیں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ حقیقی مسائل کو پس پشت ڈال کر کرپشن اور دہشت گردی کے درمیان نام نہاد گٹھ جوڑ کو توجہ کا مرکز بنایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آرمی چیف کا ملک بھر میں اسپیشل کومبنگ آپریشن کا حکم

انہوں نے کہا کہ ’کرپشن اور شدت پسندی کے درمیان تعلق کا پتہ لگانا اور ذمہ داروں کو سزا دینا ضروری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ بعض شدت پسند تنظیموں اور ایجنسیوں کے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑا جائے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست اور شدت پسندوں کے درمیان تعلق اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، بار بار اس کا انکشاف ہوتا رہا ہے اور اس کی حالیہ مثال ملا اختر منصور تھا جو نہ صرف پاکستان میں رہا بلکہ اس کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی موجود تھا۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ’جب کالعدم تنظیمیں وفاقی دارالحکومت میں ریلیاں نکالیں اور اپنے مشکوک مقاصد کیلئے چندے اکھٹے کرنے میں مصروف ہوں اور سرکاری ایجنسیاں انہیں نظر انداز کریں تو پھر کیسے کوئی اس گٹھ جوڑ سے انکار کرسکتا ہے‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ بارڈر منیجمنٹ افغانستان پر تسلط قائم کرنے کی کوشش اور اسٹریٹجک ڈیپتھ کی پالیسی کے تسلسل کا دوسرا نام ہے‘۔

فرحت اللہ بابر نے خبردار کیا کہ ایسی پالیسیوں کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

*یہ خبر 8 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی *


کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025