اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ متحدہ کی لندن قیادت کو پریس کانفرنس کے ذریعے بات عوام تک پہنچانے کا حق حاصل ہے اور انہیں مکمل اختیار ہے کہ وہ جو مناسب سمجھیں وہ کرسکتے ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'ان فوکس' میں گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ جو فیصلہ ایم کیو ایم پاکستان نے کیا وہ 22 اگست کی صورتحال کو سامنے رکھتےہوئے کیا گیا، کیونکہ ہم متحدہ کو ٹوٹنے سے بچانا چاہتے تھے جس میں کافی حد تک ہم کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ سمجھ رہے تھے کہ ایم کیو ایم اب تقسیم ہوجائے گی، لیکن ہم نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر واضح طور پر پیغام دے دیا کہ متحدہ قومی موومنٹ ایک محبِ وطن جماعت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ ایم کیو ایم پاکستان اس وقت زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کررہی ہے، اس کا مقصد ناصرف متحدہ، بلکہ اس کے ووٹرز کو بھی تقسیم ہونے سے بچانا ہے۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ اب اس بات کا فیصلہ قوم کو کرنا ہے کہ 23 اگست کا فیصلہ درست تھا یا پھر غلط۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ جب لندن قیادت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا گیا تو وہ اس میں شامل نہیں تھے اور کسی جگہ پر روپوش تھے، لہذا کچھ ہم سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں اور جس وقت یہ فیصلہ کیا گیا تو جو ہمارے رویے تھے اس بھی لندن قیادت اور خود الطاف حسین باخوبی واقف تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم تو ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ الطاف حسین سے کافی لمبا تعلق رہا ہے وہ ہی پارٹی کے بانی ہیں اور رہیں گے اور ہم نے صرف جو کچھ 22 اگست کو ہوا اس کی مخالف کی تھی۔

متحدہ رہنما کا کہنا تھا کہ اب تک کی صورتحال کے مطابق ووٹرز ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے رجوع کررہے ہیں اور اسی کو اپنی حقیقی قیادت سجمھتے ہیں، لیکن آگے کیا ہوگا وہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ لندن کی رابطہ کمیٹی نے پہلی مرتبہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ مائنس ون نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔

مزید پڑھیں: مائنس ون نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ممکن ہے، ایم کیو ایم لندن

کراچی پریس کلب میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی لندن کے رکن پروفیسر حسن ظفر عارف کا کہنا تھا کہ 'ایم کیو ایم پاکستان یا ایم کیو ایم لندن کوئی چیز نہیں، ایم کیو ایم صرف وہی ہے، جس کے قائد الطاف حسین ہیں'۔

یہ پریس کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہوئی جب چند روز قبل ہی ایم کیو ایم لندن کی 12 رکنی عبوری رابطہ کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے ایم کیو ایم لندن نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار، عامر خان، خواجہ اظہار الحسن، فیصل سبزواری اور کشور زُہرا کی پارٹی کی بنیادی رکنیت خارج کردی تھی۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی تھی جب رواں برس 22 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے کراچی اور امریکا میں کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان مخالف نعرے لگائے تھے، جس پر 23 اگست کو ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے ہی بانی اور قائد الطاف حسین سے اعلان لاتعلقی کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم کے فیصلے اب پاکستان میں ہوں گے، فاروق ستار

لندن میں مقیم ندیم نصرت، واسع جلیل، مصطفیٰ عزیز آبادی سمیت دیگر نے ایم کیو ایم پاکستان کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور الطاف حسین کو ہی ایم کیو ایم کا قائد قرار دیا تھا، جس پر ایم کیو ایم پاکستان نے ان افراد کو رابطہ کمیٹی سے نکالتے ہوئے ان کی بنیادی پارٹی رکنیت معطل کر دی تھی۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں