ہوا کچھ یوں کہ صاحب (یعنی بذات خود) دفتر پہنچے۔ اسٹور سے سگریٹ لیے تو انکشاف ہوا کہ موبائل نہیں ہے۔ حافظے نے قسم توڑی اور بالاآخر روتے دھوتے کام شروع کر ہی دیا۔

پتا چلا کہ جس ٹیکسی میں تشریف لائے تھے، اس کے ڈیش بورڈ پر موبائل دھر دیے تھے۔ پھر وہاں سے اٹھانے یاد نہیں رہے، کسی کو چھیننے کی ضرورت ہی نہیں پڑی، خود ڈیش بورڈ پر رکھ کر پیش کر دیے۔

چودہ طبق روشن ہوگئے۔ موبائلز میں اچھا خاصا ڈیٹا تھا اور ایک صحافی کا کل اثاثہ یہی ہوتا ہے۔ موبائلز پر فوری کال کی تو بیل جا رہی مگر ریسیو نہیں ہو رہا تھا۔ کراچی کا باسی ہونے کے ناطے میں منتظر تھا کہ کسی بھی وقت موبائل بند ہوجائیں گے۔ چشمِ تصور سے ٹیکسی ڈرائیور کو ڈکار مارتے دیکھ رہا تھا۔

موبائلز اتنے مہنگے نہیں تھے کہ ٹیکسی کو جوڑا بنایا جاسکتا، اور نہ اتنے سستے کہ چند دنوں تک دوستوں سمیت معدے کی مرغن چٹخاروں کی خواہش کو پورا نہ کیا جاسکے۔

جب کوششیں کر دیکھیں اور نتیجہ صفر بٹا سناٹا رہا تو ایک دوست جس کا نمبر یاد تھا، اس کو فون کیا اور اس کے کزن کا نمبر حاصل کرنے کا سوچا جو انٹیلیجنس میں تھا۔ یہ دوست تعویز گنڈوں کے چکروں میں رہتا تھا۔ اس خود ساختہ پیر (دوست) کو فون کیا، مسئلہ بتایا، مسئلے کی سنگینی بتائی اور کہا کہ ۔۔۔

میں: یار جلدی کوئی وظیفہ کر۔

دوست: ابھی کچھ نہیں کرسکتا، تھکا ہوا ہوں۔

میں: لعنت ہے تجھ پر

دوست: قبول کی, یہ بتا حلال کی کمائی کے تھے موبائل؟

میں: امید تو یہی ہے، میں نے کہا

دوست: میرے بعد تو نے آخری دفعہ کسے ٹھگی ماری تھی؟

میں: یار یہ تو یاد بھی نہیں۔

دوست: چل یاد کر، اگرنہیں ماری تو موبائل مل جائیں گے۔ یہ محبوب کے قدموں میں پڑے بابے کی دعا ہے۔

میں: اچھا چل بکواس بند کر اور اپنے کزن کا نمبر دے جو انٹیلیجنس میں ہے۔ میرے پاس موبائل نہیں تو کسی کا نمبر بھی نہیں۔

اس نے نمبر دیا اور پھر بکواس شروع کرنے لگا۔ "چل دفعہ ہوجا"، میں نے کہا اور فون رکھ دیا۔

ابھی دفتر آ کر بیٹھا ہی تھا کہ جس موبائل سے میں نے اپنے فون پر کال کی تھی اس نمبر پر نامعلوم نمبر سے کال آئی۔

"جی میں ٹیکسی والا بات کر رہا ہوں، جس نمبر پر آپ کال کر رہے ہیں وہ ایک صاحب میری ٹیکسی میں بھول گئے ہیں۔ آپ انہیں بتا دیں اور میرا یہ نمبر دے دیں۔"

میں: بھائی، میں ہی وہ صاحب ہوں جو موبائل بھول گیا تھا آپ کی ٹیکسی میں۔ آپ مجھے دے جائیں میں آپ کو کرایہ دے دوں گا۔

ٹیکسی ڈرائیور: جی میں نہیں آسکتا میں سواری لے کر جا رہا ہوں۔ آپ بری امام کے چوک پر آکر صنم میوزک سینٹر سے اپنے موبائل لے لینا۔

پھر لائن کٹ گئی۔

میں میوزک سینٹر پہنچا تو میوزک بیچنے والے صاحب آپریشن ضربِ عضب سے بہت خوفزدہ تھے۔ موبائل واپسی کے لیے شناختی کارڈ کی کاپی مانگنے لگے۔ بڑی مشکل سے وزیٹنگ کارڈ دے کر ان کا خوف ختم کیا، موبائل لیے اور ٹیکسی ڈرائیور کا پوچھا۔

وہ تو چلا گیا ہے۔ میں نے کچھ پیسے دینے کی کوشش کی تو کہنا لگا وہ ٹیکسی والا گولی مار دے گا مجھے۔

تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد وہ ٹیکسی والا آگیا۔ پتا چلا کہ ٹیکسی کرائے کی چلاتا ہے، بچے چھوٹے ہیں، مالی پوزیشن خاصی نہیں بلکہ اچھ خاصی کمزور تھی۔

میں نے اٹھتے ہوئے بہانے سے رقم دینے کی کوشش کی تو منع کردیا اور چائے بھی خود پلائی۔ جاتے ہوئے میں نے کہا کہ مجھے امید نہیں تھی موبائل مل جائیں گے کیوں کہ آجکل تو سب دوسرے کو کنگال بنانے کی کوششوں میں لگے ہیں۔

کہنے لگا،

آپ کیا سمجھتے ہیں یہاں صرف وزراء رہتے ہیں؟ جی یہاں ہم غریب بھی بستے ہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

KHAN Oct 17, 2016 06:19pm
السلام علیکم: آپ کیا سمجھتے ہیں یہاں صرف وزرا رہتے ہیں؟ جی یہاں ہم عزت دار بھی بستے ہیں۔ خیرخواہ
Bilal Oct 17, 2016 07:40pm
Commendable, but shukar karain aap Karachi main nai hain.
Moin Oct 17, 2016 09:54pm
کراچی میں بهی تو اچهے لوگ ہونگے بهائی میرے .......
KHAN Oct 17, 2016 10:13pm
@Bilal Pakistan kay aam loog harr jaga maddgaar, izzatdaar, Khudaar hoty hay.wo apnay mulk say muhabat karty hay.