اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں ملوث ملزم خالد شمیم کی درخواست ضمانت خارج کردی۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج سید کوثر عباس زیدی نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں ملوث ملزم خالد شمیم کی بعداز گرفتاری درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

دوران سماعت وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے دہشت گردی ونگ کے پراسیکیوٹر وسیم اختر رانجھا نے مقتول عمران فاروق کا ڈیتھ سرٹیفیکٹ عدالت میں پیش کیا۔

انہوں نے ملزم کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے دلائل دیئے کہ خالد شمیم وہ ملزم ہے جس نے ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کرنے کی سازش تیار کی، قتل کی سازش تیار ہونے سے پہلے خالد شمیم کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں تھا، ملزم اپنے بیان میں بھی سازش کا اعتراف کرچکا ہے، اس کے علاوہ کاشف علی کامران سے نائن زیرو پر ملتا تھا اور دونوں زیادہ تر عمران فاروق کی بات کرتے تھے۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس:برطانوی تحقیقاتی ٹیم واپس روانہ

ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے مزید دلائل دیئے کہ ملزم خالد شمیم کو برطانیہ سے افتخار نے 10 لاکھ روپے بھیجے تھے، عمران فاروق کا قتل لندن میں ہوا لیکن مقتول کو دفنایا پاکستان میں گیا، جبکہ ساتھی ملزم معظم علی کی ضمانت بھی خارج ہو چکی ہے لہٰذا خالد شمیم کی بھی خارج کی جائے۔

ملزم خالد شمیم کے وکیل ذیشان ریاض چیمہ نے ایف آئی اے پراسیکیوٹر کے دلائل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے نے زیادہ تر باتیں ہوا میں کی ہیں ثبوت کوئی نہیں دیا، ایف آئی اے نے جو دستاویزات پیش کیں وہ تصدیق شدہ نہیں، جبکہ ایف آئی اے جو دستاویزات ابھی پیش کر رہا ہے وہ چالان کے ساتھ منسلک نہیں، اس کے علاوہ میرے موکل کے خلاف کسی گواہ نے بیان نہیں دیا۔

بعد ازاں عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کی بعداز گرفتاری درخواست ضمانت خارج کردی۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کا کوڈ 'ماموں کی صبح ہوگئی' تھا

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا۔

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیر کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: دو ملزمان کا اعتراف جرم

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کا الطاف حسین کے خلاف مقدمہ

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں