اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ جنوری 2006 سے جون 2016 کے دوران رقم کی رضاکارانہ واپسی کی اسکیم کے تحت 20.4 ارب روپے حاصل کیے گئے۔

رضاکارانہ واپسی قومی احتساب آرڈیننس (این اے او)1999 کی ایک شق ہے جو کرپشن کا جرم ثابت ہونے پر کسی بھی شخص کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ کرپشن سے حاصل کی گئی کل رقم کا کچھ حصہ رضاکارانہ طور پر ادا کرے اور اپنے اوپر لگے الزامات کو ختم کرالے۔

نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ادارے نے 20.4 ارب روپے وصول کیے جن میں سے 17.8 ارب روپے وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں تقسیم کردیے گئے جبکہ بقیہ رقم بھی مختلف کیسز کی تکمیل اور دعووں کی تصدیق کے بعد تقیسم کردی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کی رضاکارانہ اسکیم آئین سے متصادم : سپریم کورٹ

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے نیب کی رضاکارانہ اسکیم پر از خود نوٹس لیا تھا اور 24 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینج نے سماعت کی تھی جس میں نیب کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ گزشتہ دہائی کے دوران رضاکارانہ اسکیم کے تحت جمع کی جانے والی رقم کی تفصیلات پیش کرے۔

عدالت عظمیٰ نے نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری کو کیس کا فیصلہ ہونے تک رضاکارانہ واپسی کے کسی معاملے کی منظوری دینے سے بھی روک دیا تھا۔

یہ از خود نوٹس جسٹس امیرہانی مسلم کے 2 نومبر کو کراچی میں دیئے جانے والے ریمارکس کی بنیاد پر لیا گیا تھا جو انہوں نے نیب کی دائر کردہ اپیل کی سماعت کے دوران دیے تھے۔

انہوں نے چیئرمین نیب کے اس اختیار پر تنقید کی تھی جس کے تحت کرپشن کے ایک مجرم کو رضاکارانہ واپسی اسکیم کے ذریعے الزامات سے پاک کرکے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔

نیب نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اب تک بیورو کی جانب سے وفاق کو ایک ارب روپے، سندھ حکومت کو 1.5 ارب، خیبر پختونخوا کو 68 کروڑ 50 لاکھ ، پنجاب کو 78 کروڑ 90 لاکھ اور بلوچستان کو 25 کروڑ 10 لاکھ جبکہ 80 لاکھ روپے گلگت بلتستان کی حکومت کو دیے گئے۔

مزید پڑھیں: کرپشن کی رقم رضاکارانہ جمع کرانے والوں کی تفصیلات طلب

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 16 لاکھ روپے 1.6 ارب روپے وفاقی کھاتے، 11.9 ارب روپے کارپوریشنز ، خودمختار اور نیم خودمختار اداروں کو دیئے گئے۔

نیب کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ پہلے ہی 1584 سول سرونٹس جن میں 165 وفاقی ملازمین اور 1419 صوبائی محکموں کے افسران ہیں، ان کی فہرست جمع کراچکی ہے جنہوں نے رضاکارانہ واپسی کی اسکیم سے فائدہ اٹھایا۔

بیورو نے وضاحت کی کہ عام طور پر رضاکارانہ واپسی اسکیم ان کیسوں پر لاگو کی گئی جن میں بڑے پیمانے پر عوام کو لوٹا گیا جن میں ڈبل شاہ، مضاربہ اسکینڈل اور پرائیوٹ ہاؤسنگ اسکیمز وغیرہ شامل ہیں۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ رضاکارانہ واپسی اسکیم کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے کیسز میں رقوم کی واپسی کا عمل تیز ہوا جیسا کہ رینٹل پاور پلانٹس کی مثال ہے جس میں تقریباً 4 ارب روپے واپس لیے گئے۔

سپریم کورٹ میں اس کیس کی آئندہ سماعت 7 نومبر کو ہوگی۔

یہ خبر 6 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں