جب البرٹ آئن اسٹائن نے اپنا مشہور زمانہ نظریہ اضافیت (Theory of relativity) پیش کیا تھا تو اس کی بنیاد اس چیز پر تھی کہ روشنی کی رفتار یکساں رہتی ہے، مگر اب محققین نے اشارہ دیا ہے کہ جدید طبعیات یا فزکس کی بنیاد بننے والا یہ تصور اتنا بھی ٹھیک نہیں جتنا عظیم سائنسدان سمجھتے تھے۔

جی ہاں واقعی اب سائنسدان نیا تجربہ کرنے والے ہیں جس میں آئن اسٹائن کے اس خیال کو جانچا جائے گا کہ روشنی کی رفتار یکساں رہتی ہے یا نہیں۔

امپیریئل کالج لندن کے پروفیسر جوآﺅ اور کینیڈا کے پیری میٹر انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر نیایش افسوردی نے 1990 کی دہائی میں یہ خیال پیش کیا تھا کہ بگ بینگ کے وقت روشی کی رفتار اب کے مقابلے میں زیادہ تیز تھی۔

اب اس خیال پر تجربات کیے جارہے ہیں اور اگر یہ درست ثابت ہوگیا تو گزشتہ 100 برس کے دوران بننے والی فزکس کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دے گا۔

آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت میں کہا گیا تھا کہ روشنی ایک ہی رفتار میں ہر جگہ سفر کرتی ہے اور اسی خیال کو کائنات کی عمر جاننے کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔

مگر اس نئے خیال میں کہا جارہا ہے کہ اگر روشنی ایک ہی رفتار سے سفر کرتی تو بگ بینگ کے بعد اس کے لیے اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ اس حد تک پھیل سکتی، جسے سائنسدانوں نے ہورائزن پرابلم قرار دیا ہے۔

اسے حل کرنے کے لیے محققین نے کہا کہ روشنی کی رفتار ابتدائی عہد میں آج کے مقابلے میں زیادہ تیز تھی۔

اب یہ دونوں سائنسدان اس خیال کو ثابت کرنے کے لیے تجربہ کررہے ہیں، ان کے بقول 'یہ خیال 90 کی دہائی میں پیش کیا گیا تھا اور اب اتنا سنجیدہ ہوچکا ہے کہ اس کی آزمائش کی جاسکے'۔

ان کا کہنا تھا 'اگر مستقبل قریب میں یہ خیال درست ثابت ہوسکا تو آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کو بہتر بنایا جاسکے گا'۔

اگر ان کا تجربہ کامیاب ہوجاتا ہے تو بھی اسے درست ثابت کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل فزیکل ریویو ڈی میں شائع ہوئے

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں