لوڈ شیڈنگ ’ماضی کا قصہ‘ بن جائے گی، وزیر اعظم
اسلام آباد: وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے توانائی منصوبوں کے تعمیراتی کاموں کی رفتار پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت میں ہی لوڈ شیڈنگ ’ماضی کا قصہ‘ بن جائے گی۔
کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ ہماری سمت درست ہے‘۔
اجلاس کے شرکاء کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکریٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگا نے کہا کہ گردشی قرضے قابو میں آگئے ہیں، وصولیاں بھی حوصلہ افزاء ہیں اور لائن لاسز بھی کم ہوگیا ہے۔
کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ تمام ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن لائنز کی تعمیر کا کام درست طریقے سے جاری ہے۔
گزشتہ ہفتے حکومت نے سینیٹ میں موقف اختیار کیا تھا کہ پاور سیکٹر میں گردشی قرضہ 328 ارب روپے کی سطح پر موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 2018 تک لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کی توقع نہیں: نیپرا
سینیٹ میں وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کی جگہ بات کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر شیخ آفتاب احمد نے کہا اعتراف کیا تھا کہ گردشی قرضہ ایک سنجیدہ مسئلہ تھا لیکن حکومت نے اسے قابو میں لانے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں توانائی کے جاری منصوبوں بشمول ہائیڈل ، کول اور ایل این جی پاور پلانٹس کا جائزہ لیا گیا۔
ان منصوبوں کے ذریعے 2017 اور مارچ 2018 تک قابل ذکر بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہونے کی توقع ہے جبکہ حکومت نے 2018 تک ملک سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی ڈیڈلائن مقرر کررکھی ہے۔
اجلاس کے شرکاء نے ملک میں توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں شروع کیے جانے والے منصوبوں پر بھی غور کیا۔
نئی ٹرانسمیشن لائنز بچھانے کے منصوبے میں ہونے والی پیش رفت کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا اور اجلاس میں بتایا گیا کہ ترسیلی نظام میں موجود رکاوٹوں کو ختم کردیا گیا ہے تاکہ صارفین تک بلا تعطل بجلی پہنچائی جاسکے۔
مزید پڑھیں: لوڈ شیڈنگ کے 2017ء میں خاتمے کا عزم
وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ ان کا دور حکومت ختم ہونے تک بجلی کی پیداوار کے لیے مہنگے ایندھن پر انحصار کافی حد تک کم ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’جب ہم نے حکومت سنبھالی تھی ملک توانائی کے بحران میں جکڑا ہوا تھا لیکن اب صورتحال بہت بہتر ہوچکی ہے‘۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’صنعتی شعبے لوڈشیڈنگ سے پاک ہوچکے ہیں جب کہ شہری و دیہی علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کافی حد تک کم ہوچکا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم آئندہ نسلوں کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے توانائی کے نئے منصوبے شروع کیے جائیں گے، پچھلی حکومتیں یہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہیں‘۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ہماری حکومت پہلے دن سے توانائی کا بحران ختم کرنے پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن پارٹی پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمٰن نے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کی اور کہا کہ حکومت نے عوام پر بوجھ بڑھا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'موجودہ حکومت نے قرضوں میں 8000 ارب روپے کا اضافہ کیا'
شیری رحمٰن نے کہا کہ ’اقتصادی رابطہ کمیٹی نے حال ہی میں پاور سیکٹر کے قرضے میں مزید دو برس کی توسیع کی جس کے بوجھ صارفین کو بجلی کے بل کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گا، حکومت پہلے ہی 16-2015 میں صارفین سے 29.3 ارب روپے بٹور چکی ہے‘۔
انہوں نے موجودہ حکومت میں ملک پر قرض کے بڑھتے ہوئے حجم اور حکومت کے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار پر مایوسی کا اظہار کیا۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ مالی سال کے آخر تک پاکستان پر قرضوں کا مجموعی حجم 22.5 ٹریلین روپے تک جاپہنچا تھا یعنی ایک سال میں قرضوں میں 2.6 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’اقتصادی پیش گوئیاں اور رپورٹس پاکستانی معیشت کے زوال پذیر ہونے کی جانب اشارہ کررہی ہیں اور اگر جلد از جلد مسائل کو حل نہ کیا گیا تو معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی‘۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ حکومت کے مجموعی ملکی و غیر ملکی قرضوں کا حجم 55 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، وزیراعظم نے اپنے آخری دورہ لندن میں لاکھوں روپے خرچ کیے جبکہ ان کی حکومت کی تباہ کن معاشی پالیسیاں قرضے میں مزید اضافے کا سبب بنیں گی۔
مزید پڑھیں: شعبہ توانائی: گردشی قرضہ 328 ارب روپے تک پہنچ گیا
انہوں نے استفسار کیا کہ حکومت کیسے ایک عام شہری کو سمجھائے گی جو ماہانہ اوسطاً 12 ہزار روپے کماتا ہے؟ اس طرح عوام کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’گرتی ہوئی برآمدات، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر میں کمی، اہم صنعتوں میں گردشی قرضوں میں اضافہ وہ مسائل ہیں جو مسلسل معیشت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ان مسائل کا قابل عمل اور مستقل حل ڈھونڈنے کے بجائے حکومت شاہانہ غیر ملکی دوروں اور عارضی اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔
یہ خبر 30 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی










لائیو ٹی وی