نیپیداو: روہنگیا مسلمانوں سے زیادتی کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی میانمار حکومت کی کمیٹی کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے ہونے والے استحصال پر آزاد کمیٹی بنائی جائے۔

برما کی رہنما آنگ سان سوچی کو میانمار فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق تحقیقات کی ناکامی پر عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔

حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کی تفتیش کے لیے 13 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جسے انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسترد کیا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق میانمار کی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی میں ایک بھی مسلم نمائندہ شامل نہیں، جبکہ اس کی سربراہی نائب صدر میئنت سوے کر رہے ہیں، جو امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ کیے گئے ریٹائرڈ فوجی جرنل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:میانمار سے فرار ہو کر ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش آمد

تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی کرنے والے نائب صدر کے سابق قریبی اتحادی تھان شوے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ میئنت سوے میانمار کے صوبے یونگان میں 2007 میں معاشی انقلاب کے مظاہرے سیفرون میں ہونے والے قتل عام میں ملوث ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم فورٹی فائیو رائٹس کے چیف ایگزیکٹو میتھیو سمتھ نے حکومتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میانمار حکومت اگر فوج کے کسی اور آدمی کی سربراہی میں بھی دوسری کمیٹی تشکیل دے گی تو بھی اسے قبول کیا جائے گا۔

ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ کمیٹی خود مختار نہیں ہے، جس وجہ سے وہ آزادی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیق نہیں کرسکتی۔

آنگ سان سوچی کے دفتر سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ تحقیقاتی کمیشن فوج کی جانب سے لاک ڈاؤن کیے جانے، پولیس کی جانب سے بارڈر پر چھاپوں اور تمام عالمی الزامات کی تحقیقات کرے گی۔

مزید پڑھیں: میانمار کے مسلمان بچے کہاں

میانمار کی سیاسی جماعت اراکن نیشنل پارٹی کے ایک سینیئر سیاستدان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نئے تحقیقاتی کمیشن سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، جب کہ مسلمانوں کی اکثریت کا بھی یہی خیال ہے کہ کمیشن میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی آواز سنی نہیں جائے گی۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ظلم و استحصال کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد پہلی بار اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان تحقیق کے لیے راکھائن پہنچنے تو لوگوں نے ان کے خلاف مظاہرہ کیا ، کمیشن کے ممبر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ کمیشن نے دورے کے دوران حقائق جمع کیے مگر تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکالا جا سکا۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ راکھائن میں فوجی کریک ڈاؤن کی وجہ سے رواں ہفتے 10 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچے ہیں ، بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچنے والے روہنگیا لوگوں نے فوجیوں کی جانب سے ظلم و استحصال اور جنسی زیادتی کی خوفناک کہانیاں سنائی ہیں۔

میانمار حکومت روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ظلم و استحصال کے الزامات کو مسترد کرتی ہے، جب کہ میانمار حکومت نے بیرون ممالک کے صحافیوں کا ملک میں داخلہ بھی بند کررکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کی آئی ایس میں شمولیت کا خدشہ

اس سے قبل گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ذیلی ادارے کی جانب سے کہا گیا گیا تھا کہ میانمار کی فوج مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے، جس وجہ سے ہزاروں مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے لیے پہنچ رہے ہیں

خیال رہے کہ میانمار، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، میں بدھ مت مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، روہنگیا کے مسلمان کئی دہائیاں قبل ہجرت کرکے بنگلہ دیش سے میانمار پہنچے تھے، میانمار کے لوگ ان کو بنگالی تسلیم کرتے ہیں۔

روہنگیا لوگوں کی بہت بڑی تعداد میانمار کی مغربی ریاست ارکان یا راکھائن میں رہائش پذیر ہے، 10 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل روہنگیا لوگوں کو بنگلہ دیش کے لوگ برمی مانتے ہیں۔

بنگلہ دیش اور برما کے درمیان تنازع کا سبب رہنے والے روہنگیا لوگوں پر ظلم و ستم کے حوالے سے گزشتہ چند سالوں سے خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں، روہنگیا افراد مسلسل بنگلہ دیش کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ، امریکا اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے روہنگیا لوگوں کی دن بہ دن بگڑتی ہوئی حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن میانمار حکومت تمام الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں