اسلام آباد: قومی اسمبلی میں وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ایک دستاویز کے ذریعے انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 29 اعشاریہ 5 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے۔

منصوبہ بندی و ترقی کی وزارت نے یہ دستاویز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ خٹک کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوال کے جواب میں جمع کرائی، پی ٹی آئی رکن کی جانب سے پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد اور غربت کی لکیر کی وضاحت طلب کی گئی تھی۔

وزارت کی جانب سے جمع کرائے جواب کے مطابق، ہاؤس ہولڈ انٹگریٹڈ سروے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے بنیادی ضروریات کی لاگت (سی بی این) 2013-2014 کے لحاظ سے لگائے جانے والے اندازے کے مطابق، آبادی کا ساڑھے 29 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے، اور یہ تعداد تقریباً ساڑھے 5 کروڑ افراد بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک تہائی پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے

وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی کی دستاویز کے مطابق جدید طریقے میں سی بی این کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے زندہ رہنے کے لیے ضروری کھانے کی چیزوں اور دیگر ضروریاتِ زندگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

دستاویز کے مطابق اس طریقہ کار کے تحت پاکستان میں غربت کی لکیر کو ہر فرد کے ماہانہ خرچے 3،030 روپے کے مطابق مقرر کیا گیا، جس کے تحت اگر کسی شخص کی ماہانہ آمدن 3 ہزار 30 روپے سے کم ہے تو اس کا شمارخطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں ہوگا۔

تاہم، سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر اے کیو سلہری کے مطابق قومی اسمبلی میں جمع کرائے جانے والے بیان میں شامل وضاحت سے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی کم تعداد سامنے آتی ہے۔

مزید پڑھیں: غربت ذہانت کے لیے تباہ کن

ڈان سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ جن لوگوں کی روزانہ آمدن 1 ڈالر سے زیادہ ہے وہ غربت کی لکیر سے اوپر ہیں، جبکہ بین الاقوامی معیار کے تحت 1.75 ڈالر سے لے کر 2 ڈالر کی روزانہ آمدن رکھنے والے افراد کو غربت کی لکیر سے اوپر قرار دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بین الاقوامی معیار کے حساب سے بات کی جائے تو 3،030 کے بجائے 5000 روپے ماہانہ کمانے والے افراد غربت کی لکیر سے باہر ہوں گے۔

ڈاکٹر سلہری کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی معیار کو لاگو کیا جائے تو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے ایس یو این سول سوسائٹی الائنس پاکستان کے نمائندہ ڈاکٹر ارشاد دانش نے بتایا کہ انسانی جسم کے لیے ضروری کیلوریز کا طریقہ استعمال بھی مختلف نتائج مرتب کرتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ الائنس اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے شروع کیا گیا تھا جس میں پاکستان سمیت 57 ممالک شامل ہیں جو انسان کے ضروری غذائیت کی سطح کے حوالے سے کام کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ارشاد دانش کے مطابق، ہمارے بچوں کو مائیکرو نیوٹرنٹس کی ضرورت ہے اور غذائیت سے بھرپور کھانا نہ ملنے کے باعث ان کی نشونما متاثر ہورہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'غربت کا خاتمہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کیلئے چیلنج'

ورلڈ فوڈ پروگرام اور وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی کی جانب سے 2 ماہ قبل لگائے جانے والے غذائی تجزیئے کے تخمینے کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر دانش نے بتایا کہ ملکی آبادی کا 69 فیصد حصہ غذا کے حوالے سے غیرمحفوظ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی غذا کا بڑا حصہ روٹی پر مشتمل ہوتا یے اور گوشت، پھل، ڈیری مصنوعات کا استعمال بہت کم ہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو یہ افراد متوازن غذا کا استعمال نہیں کرتے اور یوں انہیں صحت مند قرار نہیں دیا جاسکتا۔

انہوں نے آگاہ کیا کہ پاکستان میں لوگوں کی بڑی تعداد ایسی گندم کا استعمال کررہی ہے جس میں بیکٹریا موجود ہے اور اس سے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

ڈاکٹر دانش کے مطابق ملک میں موجود خواتین اور بچوں کی نصف آبادی غذا میں معدنیات اور وٹامن موجود نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا شکار ہیں، بچوں میں ہونے والی اموات میں سے 45 فیصد اموات نامکمل غذا کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

یہ خبر 5 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں