کراچی: سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) جنوبی شہلا قریشی کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر جنسی ہراساں ہونے والی شکایت کنندہ بروقت انصاف کی یقین دہانی کے باوجود اپنے بیانات سے انحراف کرتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بیانات سے انحراف ’تھانہ کلچر‘ اور کیس کی پیروی کے فیصلے کے بعد رسوائی کے ڈر کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔

جنسی بنیاد پر تشدد کے خلاف اقوام متحدہ خواتین کے تعاون سے ’نیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر)‘ کی جانب سے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

کانفرنس کے شرکاء نے پالیسیوں اور تحفظ کے طریقہ کار میں بہتری لاکر سندھ میں انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کے معاملے پر توجہ مرکوز کی۔

شرکاء نے قانون کی عمل داری میں کمی کی نشاندہی کی، جو بعد ازاں قانون جنگ کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جنسی ہراساں کرنےکاالزام:پی ٹی وی ڈائریکٹر نیوزکی عارضی معطلی

کانفرنس سے خطاب کے دوران شہلا قریشی نے اپنی ایک ساتھی کا، جن کے نام اور تصاویر سے کئی آن لائن آئی ڈیز بنائی گئی تھی اور وہ ایسا کرنے والے شخص کو بھی جانتی تھیں، ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’خواتین نتائج کے خوف سے شکایت کرنے اور اپنے لیے کھڑی ہونے سے ڈرتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے کیسز میں خواتین کو یقین دہانی کی ضرورت ہوتی ہے جو، پولیس اور دیگر انتظامیہ کو شہریوں کی خدمت کرنے کے بجائے بطور فورس استعمال کرنے کی وجہ سے ناپید ہے۔‘

لیگل ایڈ سینٹر کی کنسلٹنٹ ملیحہ لاری کا پاکستان پینل کوڈ 1860 کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’پی پی سی کے چند قوانین کے خود جائزے کی ضرورت ہے جو موجودہ ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے۔‘

مزید پڑھیں: لڑکی کاسائیکل چلانا خود کو ہراساں کرنےکی دعوت؟

انہوں نے کہا کہ ’موجودہ نظام میں قوانین، بالخصوص خواتین سے متعلق قوانین کو علیحدہ علیحدہ دیکھا جاتا ہے جس کے باعث اس حوالے سے کُلی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔‘

لیگل رائٹس فورم کے طاہر اقبال کا کہنا تھا کہ ’عوام میں غیر مسلموں، خواتین اور مزدوروں کی نمائندگی کے حوالے سے خلا موجود ہے، جبکہ ریپ کے کیسز کو بدترین طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: خاتون پائلٹ کو جنسی ہراساں کرنے پر پی آئی اے سے وضاحت طلب

انہوں نے کہا کہ ’ کام کی جگہ پر خواتین کو جنسی ہراساں کیے جانے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، لیکن کمیٹیاں جنہیں ضلعی سطح پر کام کا آغاز کرنا چاہیے وہ یا تو فعال نہیں یا سِرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔‘

کراچی پولیس کے سربراہ مشتاق مہر نے پولیس میں خواتین کے کردار سے متعلق کہا کہ ’اس حوالے سے کافی خلا موجود ہے، پولیس میں خواتین افسران کی تعداد صرف ایک ہزار ایک سو ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں مرد پولیس افسران کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔


یہ خبر 7 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں