اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کی ملک بدری سے متعلق سنگل بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاک ترک اسکولز کے چیئرمین عالمگیر خان کی جانب سے دائر کی گئی انٹرا کورٹ اپیل میں موقف اپنایا گیا تھا کہ 17 نومبر کو عدالت عالیہ کے سنگل بینچ نے عجلت میں انھیں سنے بغیر فیصلہ سنا دیا۔

عالمگیر خان نے موقف اختیار کیا کہ پاک ترک اسکولز کے اسٹاف سمیت تمام اہل خانہ کو حکومت پاکستان نے ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد ان کے ویزوں میں توسیع بھی نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں:پاک ترک اسکولز کے عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم

درخواست میں کہا گیا کہ 11 نومبر کو نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا اور ہمیں ایک ہفتہ میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا اور جب عدالت عالیہ سے رجوع کیا گیا تو درخواست یہ کہہ کر نمٹا دی گئی کہ وزارت داخلہ سے دوبارہ رجوع کیا جائے۔

درخواست میں وزارت داخلہ، پاک ترک اسکول کے رمضان ارسلام اور مروتھ ارود کو فریق بنایا گیا تھا۔

پاک ترک اسکولز کے چیئرمین کی جانب سے دائر انٹر کورٹ اپیل کی سماعت عدالت عالیہ کے ڈویثرن بینچ پر مشتمل جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔

یہ بھی پڑھیں: پاک ترک اسکولز کے اساتذہ کو وزارت داخلہ سے رجوع کرنے کا حکم

دوران سماعت درخواست گزار کی جانب سے وکیل بابر ستار نے دلائل دیئے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے کو معطل کیا جائے، جنھوں نے ہمارا موقف سنے بغیر وزارت داخلہ سے رجوع کرنے کا حکم دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ سے اُس وقت رجوع کیا جا سکتا ہے جب ہمارے پاس ویزے ہوں گے اور وزارت داخلہ نے ابھی تک ویزوں میں توسیع ہی نہیں کی۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ سنگل بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر تعلیمی سال ختم ہونے تک ویزوں میں توسیع کی جائے۔

مزید پڑھیں: پاک ترک اسکول عملے کے خلاف کارروائی سے گریز کا عدالتی حکم

عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے گذشتہ ماہ 14 نومبر کو پاک ترک اسکولز کے تمام عملے کو ایک ہفتے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا، جب کہ وزارت داخلہ نے عملے کی جانب سے ویزا کی مدت بڑھانے کی درخواست بھی مسترد کردی تھی۔

خیال رہے کہ ترکی کے وزیر خارجہ چاووش اوغلو نے رواں برس اگست میں اپنے دورے کے دوران حکومت پاکستان سے درخواست کی تھی کہ پاک ترک اسکولز کو امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن سے غیرقانونی روابط کے تحت بند کردیا جائے، جس پر پاکستان نے ترک وزیر خارجہ کو معاملہ حل کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:ترک عملے کی بے دخلی، والدین اور طلبہ پریشان

ترک صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے رواں برس جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی ذمہ داری بھی اردگان کی جانب سے فتح اللہ گولن پر عائد کی گئی تھی۔

پاک ترک اسکولز اینڈ کالجز 1995 میں ترکی سے وابستہ این جی او کے تحت کھولے گئے تھے، اس وقت پاک ترک اسکولز کے تحت راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان، کراچی، حیدرآباد، جامشورو، خیرپور اور کوئٹہ میں 28 اسکولز چل رہے ہیں، جن میں نرسری سے اے لیول تک کے 11 ہزار طالب علم زیر تعلیم ہیں۔

حکومت کی جانب سے ملک بدری کے احکامات کے بعد پاک ترک اسکولز کا عملہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، جب کہ ملک کے مختلف شہروں میں ان اسکولز کے طالب علم بھی اپنے اساتذہ کو ملک بدر کرنے والے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں