افسوس کی بات ہے کہ افغانستان اور دیگر پڑوسی ممالک کے آپس میں سلامتی، سیاسی، اور اقتصادی تعاون کو بڑھانے کے لیے بنایا گیا فورم پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے فورم میں بدل گیا۔ امرتسر میں ہارٹ آف ایشیاء کے رکن ممالک کے وزراء کی میٹنگ میں جو کچھ ہوا، وہ اس طرح کی کثیر الفریقی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کے بارے میں سوالات اٹھاتا ہے۔

پاکستان کے خارجہ امور کے اعلیٰ ترین عہدیدار کو ہندوستانی وزیرِ اعظم کی جانب سے دیے گئے عشائیے میں مرکزی ٹیبل پر نہ بٹھانا اور انہیں 'سکیورٹی وجوہات' کی بناء پر گولڈن ٹیمپل جانے سے روک دینا بنیادی سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے۔ ہندوستانی حکام کی جانب سے ہمارے ہائی کمشنر کو صحافیوں سے گفتگو سے روکنے کے منظر کی بھی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔

جیسا کہ توقع تھی، ہندوستانی وزیرِ اعظم نے ہارٹ آف ایشیاء فورم کو چند ماہ قبل گوا میں ہونے والے برکس اجلاس کی طرح ہی پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اسلام آباد کو بدنام کرنا، اسے بین الاقوامی طور پر تنہا کر دینا، اور دوسروں کی نظر میں اسے 'دہشتگردوں کی پناہ گاہ' بنا کر پیش کرنا ان کی پالیسی میں شامل ہے۔

ہندوستانی وزیرِ اعظم برکس اجلاس میں بھلے ہی اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوئے ہوں، مگر انہیں امرتسر میں افغان صدر کی صورت میں ایک مضبوط اتحادی مل گیا ہے۔

بڑھتی ہوئی طالبان دراندازی سے نمٹنے کی کوششوں میں الجھے ہوئے اشرف غنی کی پریشانی قابلِ فہم ہے، مگر پھر بھی ان سے توقع تھی کہ عام طور پر دھیما مزاج رکھنے والے رہنما معقول رویہ اختیار کریں گے۔

انہیں دو طرفہ اختلافات اور تنازعات کو ان کے ملک کی سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے بنائے گئے کثیر الفریقی فورم پر نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔

ان کی کئی شکایات جائز ہوں گی، مگر عوامی طور پر پاکستان کی اقتصادی امداد اور تعاون کی پیشکش کو مسترد کرنا نامناسب تھا، اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان خلیج مزید گہرا ہوگا اور خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگا۔

صدر اشرف غنی کے تبصروں نے مودی حکومت کو پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے مزید جواز فراہم کیا۔ فورم میں صرف ایک اور وہ بھی کمزور آواز روسی نمائندے کی تھی، جس نے ایک ملک کو نشانہ بنانے کی مذمت کی۔

اس سے ہماری اپنی خارجہ پالیسی پر بھی سنجیدہ سوال اٹھتے ہیں۔

امرتسر میں جو بھی ہوا، وہ یقینی طور پر حیران کن نہیں تھا۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے مبینہ طور پر وزارتِ خارجہ کو وہاں کے دشمنانہ ماحول سے آگاہ کر دیا تھا۔

ایک باخبر اور قریبی ذریعے کے مطابق ہندوستان میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ کانفرنس میں مشیرِ خارجہ کے بجائے سیکریٹری خارجہ کو بھیجا جائے۔

حکومتی دلیل میں کچھ وزن ضرور ہے کہ ایسا کرنے سے رکن ممالک، خصوصاً افغانستان، جو کہ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کا مرکزی رکن ہے، کو غلط پیغام جائے گا۔

مگر بادی النظر میں برے سلوک کا سامنا کرنے کے لیے مشیرِ خارجہ کو بھیجنے سے بہتر تھا کہ کسی اور کو بھیجا جائے۔

بہرحال یہ قابلِ تحسین ہے کہ کشیدہ ماحول کے باوجود بھی سرتاج عزیز نے اپنی تقریر میں توازن قائم رکھا۔ افغان صدر اشرف غنی کی شعلہ بیانی کے باوجود سرتاج عزیز نے کانفرنس سے ہٹ کر ان سے ملاقات بھی کی۔

کانفرنس کی کارروائیوں کے اختتام کے موقعے پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں اس علاقائی فورم کے پیچھے اہم مقاصد پر دوبارہ زور دیا گیا کہ دہشتگردی، انتہاپسندی اور غربت کے خلاف لڑائی میں افغانستان کے اطراف کے ممالک کے درمیان تعاون میں فروغ دیا جائے اور رکن ممالک کے درمیان رابطوں اور تجارت کو وسعت دی جائے۔

مگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ اور افغانستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی عداوت اس فورم کو مزید مؤثر بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

اس فورم کا آغاز 2011 میں ہوا۔ اس کے 14 ارکان اور 17 مبصر ممالک ہیں جن میں امریکا سمیت دیگر مغربی ممالک شامل ہیں۔ اس فورم کے قیام کے پیچھے ایک بڑا مقصد خطے کے ممالک کی مداخلت کی مدد سے افغان بحران کا خاتمہ ہے۔

افغانستان میں ابھرتی ہوئی بغاوت اور وہاں موجود خانہ جنگی کے حل کے لیے کسی سیاسی حل کی تلاش میں ناکامی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس فورم نے خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔

یہی اسلام آباد اور کابل کے درمیان تناؤ کی ایک بڑی وجہ بھی رہی ہے۔ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے لے کر ریکارڈ تعداد میں افغان فوجی اور شہری مارے جا چکے ہیں۔

یہ صورتحال صدر غنی کی ناکامی کو بھی بیان کرتی ہے، کابل حکومت ایسا مانتی ہے کہ اگر پاکستان سرحد پار سے کارروائی کرنے والی افغان طالبان قیادت کو لگام دے تو افغانستان میں لڑائی تھم سکتی ہے۔

اگرچہ کابل کی دلیل تھوڑی بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے، مگر یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقے اب بھی چند افغان طالبان باغیوں کے ہاتھوں محفوظ ٹھکانے کے طور پر استعمال ہر رہے ہیں۔

بلاشبہ صدر غنی نے منتخب ہو کر دوریاں ختم کرنے کی کوشش ضرور کی مگر پاکستان کی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکامی کے بعد انہوں نے اپنا رخ دہلی کی طرف کر دیا۔ اسلام آباد باغیوں پر اپنے محدود اثر کے بارے میں کابل کو قائل کرنے میں ناکام رہا۔

دوسری جانب پاکستانی طالبان کے افغانستان میں پناہ لینے کے مسئلے نے دونوں ملکوں کی تقسیم کو مزید بڑھا دیا۔

یقیناً کابل اور نئی دہلی کے درمیان بڑھتے تعلق سے ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا دو محاذوں پر الجھ جانے کا برا خواب حقیقت میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

کابل کو ہندوستانی پالیسی کے نقطہءِ نظر سے دیکھنے اور اسے سیاہ و سفید کے طور پر دیکھنے کی ہماری اپنی کمزور پالیسی نے ہمارے لیے معاملات مزید بگاڑ دیے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہو سکتی ہے کہ دراندازی کا اہم مرکز افغانستان میں ہو مگر کابل اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے افغان طالبان کو کافی فائدہ پہنچا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تناؤ میں مستقبل قریب میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں ہیں مگر ہمیں افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ سچ ہے کہ دوریاں مٹانا اکیلے پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے مگر ہمیں افغانستان کو خالصتاً سکیورٹی بنیادوں کے تناظر سے دیکھنے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ طالبان دراندازی پاکستان کے لیے بھی اتنا بڑا خطرہ ہے جتنا افغانستان کے لیے ہے۔

تاہم کابل کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانے، اور افغانستان میں ہر برے عمل کا الزام پاکستان پر ڈالنے کی روش ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

صدر غنی کی شعلہ بیانی مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ انہیں ایک مدبر رہنما کا وہی تاثر برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جس کا انہوں نے صدر بننے کے فوراً بعد مظاہرہ کیا تھا، کیوں کہ ہارٹ آف ایشیا کو تنازعات کے فورم میں بدل دینے سے افغانستان میں امن اور معاشی استحکام لانے کے لیے خطے میں مطلوب تعاون بڑھانے میں مدد نہیں ملے گی۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 دسمبر 2016 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں