افغان نائب صدر کے خلاف جنسی الزامات کی تحقیقات
کابل: افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم کی جانب سے اپنے ایک مخالف کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات منظر پر آنے کے بعد افغان حکومت نے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔
مذکورہ اسکینڈل پر افغانستان کو مغربی اتحادیوں اور دیگر کارکنان کی جانب سے ملک میں سزائیں نہ دیئے جانے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے حوالے سے تنقید کا سامنا تھا۔
نائب صدر اور سابق سردار عبدالرشید دوستم کا نام جنگی جرائم میں ملوث افراد کے طور پر بھی لیا جاتا ہے، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان کے شمالی صوبے جوزجان سے روایتی کھیل بزکشی یا پولو کے مقابلے کے دوران احمد اشچی کو اغوا کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عبدالرشید دوستم پر الزام ہے کہ انہوں نے احمد اشچی کو 5 دن تک غیرقانونی طور پر اپنے نجی کمپاؤنڈ میں یرغمال بنائے رکھا، احمد اشچی کا دعویٰ ہے کہ وہاں انہیں تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: افغان نائب صدر عبد الرشید دوستم پر حریف کے سنگین الزامات
افغانستان کے اعلیٰ سرکاری پراسیکیوٹر نے ایک بیان میں کہا کہ اٹارنی جنرل کے دفتر کی جانب سے اس معاملے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ معاملے کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کی جائیں گی۔
خیال رہے کہ امریکا، یورپی یونین، آسٹریلیا اور کینیڈا کے مطالبے کے بعد افغانستان کی حکومت نے اس معاملے پر تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
افغانستان کے مقامی میڈیا کے مطابق رواں ماہ کے اوائل میں امریکی فوج کے زیر استعمال بگرام ایئربیس کے قریب بازیاب ہونے والے احمد اشچی زیر علاج ہیں۔
مزید پڑھیں: دوستم کی 'جنبش ملیشیا' پر عدالتی کارروائی کا مطالبہ
دوسری جانب نائب صدر دوستم نے ان الزامات کی تردید کی ہے، تاہم ان کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ وہ تحقیقات کے سلسلے میں ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ معاملے کو روایتی عدالتوں کے بجائے قبائلی عمائدین کی ثالثی سے حل کیا جائے۔
مبصرین کو شبہ ہے کہ حکومت عبدالرشید دوستم کو بدسلوکی کے تمام الزامات سے بچا لے گی۔
کابل کے تجزیہ نگار احمد سعیدی کے مطابق دوستم اتنے زیادہ طاقتور ہیں کہ انہیں عدالتوں میں بھی نہیں لے جایا سکتا۔
یہ خبر 19 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی










لائیو ٹی وی