نازک مزاج امن اور لاہور کا والمکی مندر

اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2016
یہ مندر اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہاں پر ہندو مذہبی تہواروں کے علاوہ کرسمس کی تقریبات بھی منائی جاتی ہیں۔ — فوٹو ہارون خالد۔
یہ مندر اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہاں پر ہندو مذہبی تہواروں کے علاوہ کرسمس کی تقریبات بھی منائی جاتی ہیں۔ — فوٹو ہارون خالد۔

لاہور کے ایک گنجان بازار کے بیچ میں سے فیروزی رنگ کا مقبرہ دور سے ہی نظر آ جاتا ہے۔ اس کی آٹھ کونوں والی سفید عمارت سائیکلوں اور کپڑے کی دکانوں میں کہیں کھو سی گئی ہے۔ یہ سولہویں صدی کے صوفی بزرگ شیخ عبدالرزاق کا مزار ہے۔

مزار کے قریب ہی قطب الدین ایبک کا مزار ہے۔ انہیں بطور ایک غلام بیچا گیا تھا مگر آگے چل کر انہوں نے مملوک خاندان (خاندانِ غلاماں) کی بنیاد رکھی، اور قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں دہلی سلطنت پر حکمرانی بھی کی۔

قطب الدین ایبک کے مقبرے کی تعمیر کافی سادہ ہے؛ ایک چھوٹی سی عمارت ہے اور اس کے بیچ میں اس بادشاہ کی قبر ہے۔

فیروزی گنبد کے سامنے کالونیل لاہور کی عمارتیں نظر آتی ہیں۔ یہ علاقہ مال ایریا کے نام سے مشہور ہے۔ اس علاقے میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی اور میو ہسپتال ہے جو 1869 سے 1872 تک ہندوستان کے وائس رائے رہنے والے لارڈ میو کے نام سے منسوب ہے۔

سڑک کی دوسری جانب دو اہم پاکستانی یونیورسٹیاں، پنجاب یونیورسٹی اور نشینل کالج آف آرٹس، جسے پہلے میو اسکول آف انڈسٹریل آرٹس کہا جاتا تھا، موجود ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کو بھی برٹش انتظامیہ نے قائم کیا تھا۔

قطب الدین ایبک کا مزار — وکی میڈیا کامنز
قطب الدین ایبک کا مزار — وکی میڈیا کامنز

برٹش دور کی نشانیوں کے بالکل درمیان حیران کن طور پر حالیہ دنوں میں دوبارہ بحال ہونے والا پاک ٹی ہاؤس واقع ہے جو کسی زمانے میں شہر کے دانشوروں اور بائیں بازو کے کارکنوں کا اہم مرکز ہوا کرتا تھا۔

حتیٰ کہ 1947 میں تقسیمِ ہند سے قبل بھی یہ کیفے ٹیریا ارد گرد کی یونیورسٹیوں کے دانشوروں اور کارکنوں کے لیے دل بہلانے کی ہردلعزیز جگہ تھی۔ برٹش راج کے ناقد لبرل اور ترقی پسند خیالات کا تبادلہ اسی جگہ پر ہوتا تھا۔

تقسیمِ ہند کے بعد جب قوم سازی کے نام پر ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں پر سختیاں شروع کی گئیں، تو اب پاک ٹی ہاؤس کے نئے نام والی یہ عمارت ایک بار پھر آمریت مخالف جدوجہد کا مرکز بن گئی۔

مگر مسلط حکمرانی کے خلاف لاہور کی مزاحمت ماند پڑنے اور شہر میں دانشورانہ اور ثقافتی سرگرمیوں میں کمی واقع ہونے کے ساتھ یہ ٹی ہاؤس بھی ماند پڑ گیا۔

ایک ٹائر ہول سیلر کی جانب سے خریدے جانے کے بعد اس جگہ کو ٹائروں سے بھر دیا گیا۔ پنجاب حکومت کی مداخلت کے بعد 2013 میں ٹی ہاؤس کی مرمت و تعمیر کی گئی اور لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔

مندر سے ملاقات

وہاں سے چند کلومیٹرز دور انارکلی کا مقبرہ ہے جہاں سے ایک دلچسپ کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔

انارکلی، جسے اکبر بادشاہ کی ایک کنیز تصور کیا جاتا ہے، شہزادہ سلیم کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب انارکلی کی اس 'گستاخی' کا پتہ چلا تو بادشاہ نے اسے دیوار میں زندہ چنوا دیا تھا۔

بعد میں جب شہزادہ سلیم شہنشاہ جہانگیر بنا تو اس نے اپنی محبوبہ کے احترام میں ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا۔

یہ مقبرہ بھی نمایاں طور پر دیگر مغل مقبروں جیسا ہے۔ عمارت کے آٹھ کونے ہیں اور اوپر ایک گنبد ہے۔ مگر حیران کن طور پر قبر درمیان کے بجائے ایک ایک کنارے پر موجود ہے جس پر جیومیٹریکل ڈیزائن کندہ ہیں۔

تصویر وکی میڈیا کامنز
تصویر وکی میڈیا کامنز

مقبرے کے ارد گرد کے علاقے کا نام بھی انارکلی پڑ گیا۔ انارکلی بازار شہر کے سب سے بڑے اور پرانے بازاروں میں سے ایک ہے۔

اس کے برابر میں ہی نیلا گنبد مارکیٹ ہے جو کہ انارکلی بازار کا ہی ایک حصہ ہے۔ مارکیٹ کے اس حصے میں زیادہ تر کپڑے، سائیکلوں اور کار ٹائروں کی دکانیں ہیں۔

یہاں ہر روز ہزاروں لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے جو اسے شہر کے مصروف ترین علاقوں میں سے ایک بنا دیتا ہے۔ اس بازار کو یہ نام شیخ عبدالرزاق کے فیروزی گنبد سے حاصل ہوا ہے۔

بازار کے شور و غل اور ہل چل میں یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ یہاں شہر کے دو زیر استعمال ہندو مندروں میں سے ایک مندر واقع ہے۔

نیلا گنبد والمِکی مندر تنگ گلی میں ٹائر کی ایک بڑی دوکان کے برابر میں واقع ہے۔ مندر کا چھوٹا آہنی دروازہ علاقے میں موجود کسی بھی گھر کے دروازے سے مختلف نہیں ہے۔ داخلی راستے پر لہرا رہے زعفرانی رنگ کے جھنڈے سے ہی آپ کو اس عمارت کے مندر ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

مندر کا اندرونی حصہ بھی کسی گھر جیسا ہی ہے۔ ایک بڑا صحن ہے، جس کے ایک کونے میں دو کمرے ہیں۔ ایک کمرہ والمِکی دیوتا، جبکہ دوسرا کمرہ دیگر ہندو دیوتاؤں سے منسوب ہے۔

مندر کے باہر برآمدے میں دیوتا والمِکی اور اس کے دو پیروکاروں لَوا اور کَش کی ایک بڑی تصویر موجود ہے، جو لاہور کی دیومالائی جڑوں کا عکس پیش کرتی ہے۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ لَوا، جو رام دیوتا کے بیٹے اور رامائن لکھنے والے والمِکی کے پیروکار تھے، نے لاہور کی بنیاد ڈالی تھی جبکہ کَش نے جڑواں شہر قصور کی بنیاد رکھی تھی۔

دوسری جانب موجود صلیب کا نشان اس مندر کے نسبتاً حالیہ بین المذاہب ہم آہنگی کی فطرت کو ظاہر کرتا ہے، جو اسے تقسیم ہند کے بعد نادانستہ طور پر اختیار کرنی پڑی تھی۔

والمِکی کے کئی پیروکاروں نے تقسیم ہند کے بعد وجود میں آنے والے نئے ملک میں ہندوؤں کے ساتھ امتیازی رویوں سے بچنے کی خاطر عیسائیت اختیار کر لی تھی۔

مگر ان میں سے زیادہ تر نے نئی مسیحی شناخت کے ساتھ اپنی والمکی شناخت بھی برقرار رکھنے کے لیے دو نام اختیار کیے، ان میں سے ایک ہندو اور دوسرا مسیحی نام ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے روایتی ہندو تہواروں کے ساتھ مسیحی تہوار بھی منانے شروع کر دیے۔

اکتوبر کے آخر میں، جب پاکستان میں ہندو تہوار دیوالی تقریباً کسی کو معلوم ہوئے بنا گزر گیا، چند سو عقیدت مند 14 سالہ جلاوطنی کے بعد دیوتا رام اور سیتا کے ایودھیا لوٹنے کے جشن میں دیے روشن کرنے اور بھجن گانے کے لیے اس مندر کے صحن میں اکٹھا ہوئے۔

چند دنوں بعد یہ صحن ایک بار پھر جگمگانا تھا، اس بار یہ جشن کرسمس کے موقع پر حضرت عیسیٰؑ کی ولادت پر ہونا تھا۔

کرسمس کے موقع پر بھی برآمدے میں ایک جھولا رکھا گیا اور خواتین عقیدت مند حضرت عیسیؑ کے بچپن کی شبیہہ پر اپنا پیار نچھاور کرتی رہیں۔ یہ رسم کرشنا جنماشٹمی یا دیوتا کرشنا کے یومِ پیدائش کی روایت یاد دلاتی ہے، جس کا جشن بھی اس مندر میں منایا جاتا ہے۔

اتفاقیہ طور پر جشن کے دونوں موقعوں پر ایک ہی جھولا استعمال کیا جاتا ہے۔

جہاں پاکستان بھی اب تیزی سے مذہبی بنیادپرستی میں دھنستا جا رہا ہے وہاں لاہور کے دل میں واقع یہ چھوٹا سا مندر مذہبی برداشت کی مثال قائم کیے ہوئے ہے۔

اس مندر میں پورے سال درجنوں مختلف تہوار منائے جاتے ہیں، چند تقاریب تو رات دیر تک جاری رہتی ہیں۔

امن کی نازک صورتحال

کئی سالوں سے اب تک نیلا گنبد کے مقام پر ایک بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے، جس کی وجہ سے شہر کی والمکی برادری خود کو محفوظ اور بااختیار محسوس کرتی ہے۔

تقسیم ہند کے بعد جن تہواروں کو ترک کر دیا گیا تھا، شاید آس پاس کے لوگوں کی رواداری محسوس کرتے ہوئے اس برادری نے ایک بار پھر وہ تہوار منانا شروع کر دیے۔

تاہم ہمیشہ سے صورتحال ایسی نہیں تھی۔ 6 دسمبر 1992 کے دن ایودھیا، اتر پردیش میں ہندو کار سیوکوں کی جانب سے بابری مسجد کو مسمار کر دیا گیا۔

اس کے اگلے ہی دن ایک مشتعل گروہ نے مندر پر دھاوا بول دیا۔ جہاں چند لوگوں نے حملہ کیا، تو وہاں دیگر نے والمکی اور کرشنا کی مورتیاں توڑ ڈالیں۔ یہاں تک کہ عقیدت مندوں کے ذاتی سامان کو بھی نہیں بخشا گیا۔

مندر سے قیمتی سامان نکال لینے اور مٹھی بھر والمکی عقیدت مندوں کو مندر سے باہر نکال دینے کے بعد مندر کو نذر آتش کر دیا گیا۔

اس حملے کے تقریباً 6 ماہ بعد بھی مندر ویران رہا، کیوں کہ والمکی عقیدت مند کسی قسم کے ممکنہ خطرے سے بچنے کی خاطر اپنے گھروں تک محصور رہے۔

پھر آہستہ آہستہ برادری ایک بار پھر اکٹھا ہوئی اور اپنے آبا و اجداد کے مندر کی از سرِ نو تعمیر کی۔

اس تباہ کن دن کو 24 سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد نیلا گنبد کی دونوں برادریاں تلخیوں سے آگے بڑھ چکی ہیں۔ تاہم جہاں تک ہندوستان اور پاکستان کا تعلق ہے تو امن کی صورتحال ہمیشہ سے ہی نازک ہے۔

سرحد کے ایک پار اگر عدم برداشت کی کارروائی ہوتی ہے تو اس کا رد عمل سرحد کے دوسرے پار بھی نظر آئے گا۔

اس لیے لاہور کے والمِکیوں کو علم ہے کہ ان کے یہ پر امن ماحول پلک جھپکتے کے ساتھ ہی تباہی میں بھی بدل سکتا ہے۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر اسکرول ڈاٹ ان پر شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں